سی آئی اے چین میں بڑا کھیل کھیلنے جارہی , سپائی چیف نے طبل جنگ بجا دیا

سی آئی اے چین میں بڑا کھیل کھیلنے جارہی , سپائی چیف نے طبل جنگ بجا دیا
امریکہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بیجنگ میں اپنے جاسوسی نیٹ ورک کو بحال کر رہا ہے۔حال ہی میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے کہا کہ امریکہ چین میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کو دوبارہ کھڑا کر رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب چینی ریاست نے گزشتہ برسوں میں کامیابی کے ساتھ سی آئی اے نیٹ ورک کا سفایا کر دیا تھا، جس سے چین کی قیادت کے ارادوں نے مخالفین کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔

اس کے باوجود چین میں سی آئی اے کا کیا کردار رہا ہےاس کے بارے میں قوم ذرائع ابلاغ میں کچھ نہیں کہا گیا اور جو لوگ اس پر رپورٹ کرتے ہیں انہیں سازشی تھیورسٹ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح، “بیرونی قوتوں” کی جانب سے اپنی سیاست میں جوڑ توڑ کے حوالے سے چین کی وارننگ کو بھی کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، اور مزید یہ کہ چین کی جانب سے جاسوسی کے الزام میں کسی بھی گرفتاری کو بھی غیر قانونی اور سیاسی محرک قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔تو کیا وہاں سی آئی اے موجود ہے یا نہیں؟

عام شہریوں کی پختہ معلومات کے مطابق سی آئی اے صرف تاریخ کے لحاظ سے حقیقی معنوں میں موجود رہی ہے۔ یعنی یہ بات کلاسفائیڈ دستاویزات سے سامنے آئی ہے ، لیکن ہم جزم سے ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ سی آئی اے فزیکلی اس طرح کے معاملات میں ملوث ہے۔ مثال کے طور پر یہ تو جان سکتے ہیں کہ کس طرح سی آئی اے نے عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں دراندازی کی اور ممکنہ حملوں کی ناکامی کے لیے اہلکاروں کو رشوت دی، یا اس نے دنیا بھر کے ممالک میں کس طرح بغاوتیں شروع کیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم ان واقعات کے بارے میں اس وقت تک نہیں سنتے جب وہ رونما ہوتے ہیں، جن واقعات میں مکمل رازداری اور انٹیلی جنس معاملات ہیں اور اس لیے وہ تمام چیزیں جو سی آئی اے کرتی ہے ان کو آزادی اور جمہوریت کا فروغ وغیرہ کی کوششوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ برنز کے اس طرح کے غیر معمولی تبصروں کے باوجود مین سٹریم میڈیا پراپیگنڈہ کرتا ہے کہ سی آئی اے موجود نہیں ہے، اور اس کے موجودہ اقدامات کسی بھی قسم کے واقعہ یا ترقی کے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ لوگ جو ان معاملات میں وسل بلوئنگ کرتے ہیں اور سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے جولین اسانج وغیرہ ۔ اس کا شکار کیا جاتا ہے اور انہیں وحشیانہ سزا دی جاتی ہے۔ جب ایک نئی لیک نے انکشاف کیا کہ مائیک پومپیو کی قیادت میں سی آئی اے نے ان کے قتل تک کا منصوبہ بنایا تھا تو اسے میڈیا نے بڑے پیمانے پر نظر انداز کر دیا، سوائے صومالی زبان میں بی بی سی کی رپورٹنگ کے ، کہ اس نے رپورٹ کیا تھا۔

اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے سی آئی اے کے متعلق چین کی احتیاط اور چوکسی کے عمل کو بڑے پیمانے پر بے حسی اور جبر قرار دیا جاتا ہے۔ اگر چین ان فرموں کے خلاف کارروائی کرتا ہے جن کو ممکنہ جاسوسی سے منسلک سمجھتا ہے، جیسا کہ امریکی کنسلٹنسی، تو مین سٹریم میڈیا بیجنگ کو غیر معقول، بند سوچ کا حامل ، غیر محفوظ قرار دے کر جواب دیتا ہے ۔ اس طرح بیجنگ سے متعلق ہر بیانیہ ان دنوں ہمیشہ اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ یہ کاروبار کے لیے برا ہے۔ اس کا یہ عمل ظلم ہے۔ جب کہ امریکی میڈیا بیجنگ کے امریکی جاسوسی کے بارے میں اٹھائے گئے ہر اقدام کو مخصوص زاویے سے بیان کرتا ہے برنر کا حالیہ بیان امریکہ کی چین کے بارے میں جاسوس اور انٹیلی جنس معالات کو آگے بڑھانا بہت زیادہ سوال پیدا کرتا ہے اور امریکہ کے زیر سایہ مین سٹریم میڈیا اس مخصوص بیانیے کی نفی کرتا ہے جسے وہ اکثر و بیشتر پیش کرنے میں مصروف رہتا ہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین نے ماضی میں کامیابی کے ساتھ سی آئی اے کے نیٹ ورکس کو توڑا ہے، اور اب بھی جاسوسوں کے لیے کام کرنے کے لیے وہ زمین تنگ کر رہا ہے، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کسی دھوکے اور فریب میں نہیں ہے ، بلکہ اس کا واضح اور دو ٹوک فیصلہ ہے۔ یہ قابل فہم بات ہے کہ امریکہ نے چین کو اپنا بنیادی حریف اور خارجہ پالیسی کا مقصد قرار دینے کے بعد نشانہ بنا رکھا ہے۔ سی آئی اے چیف برنز نے جیسے کہا کہ چین میں سی آئی اے اپنی توجہ اور سرگرمیاں بڑھائے گی۔ اس لیے اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ سی آئی اے اپنی موجودگی کو دوبارہ برقرار کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔ سب سے پہلے یہ چین کے رہنماؤں کی جاسوسی کرنا چاہتے ہیں ، ان کی چالوں، ارادوں اور حکمت عملیوں کو سمجھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یہ ادارہ یعنی سی آئی اے چین کی صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کی جاسوسی کرنا چاہتا ہے۔ تیسرا وہ حکومت کو کمزور کرنے اور اسے کمزور کرنے کے لیے چین کے معاشرے میں اختلاف اور بدامنی کو بھڑکانا چاہتا ہے، جس میں ریاست سے غداری کے لیے اہلکاروں کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش بھی شامل ہے۔

سی آئی اے کی واضح مداخلتوں میں سنکیانگ اور تبت جیسے خطوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، لیکن ہانگ کانگ میں بدامنی اور بغاوت کو مزید واضح طور پر بھڑکانا بھی شامل ہے، ایک ایسا الزام جسے فی الحال بیجنگ کے “آمرانہ پاگل پن” کے طور پر مسترد کیا جا رہا ہے۔ لیکن یقیناً جب دہائیاں گزر جائیں گی آخرکار سچ سامنے آجائے گا ۔ سی آئی اے امریکی جیو پولیٹیکل مقاصد کے نام پر دوست اور دشمن دونوں ممالک میں دراندازی، تخریب کاری، مداخلت اور ان کو کمزور کرتی ہے۔ اب، اس کی نظروں میں چین ہے لیکن اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں