وزیراعظم عمران خان کو پاکستانی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے رجیم چینج کے مشترکہ آپریشن کے ذریعے ہٹانے کی خبر بریک کرنے کے بعد انٹرسیپٹ نے ایک اور تحلکہ خیز خصوصی رپورٹ شائع کی ہے جس میں پاکستانی اور امریکی سٹبلشمنٹ کے گھناونے گٹھ جوڑ کا پول کھول دیا ہے.
سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی پرآکسی لڑنے ملک میں فرقہ واریت اور گن کلچر پھیلانےسے لے کر اپنے ہزاروں شہری شہید کروانےکروانے تک ، اس کے بعد نائن الیون کے بعدامریکی جنگ میں اپنے ہزاروں شہری اور فوجی شہید کروانےسے لے کر ملک کو بلین ڈالر کا نقصان کروانے کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اب ایک دفعہ پھر امریکی پر آکسی کا رول ادا کرنے جا رہی ہے.
امریکی ڈالروں کے لالچ کے قرض نے پاکستان کی فوج کو انتخابات ملتوی کرنے، عمران خان کی جماعت کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کرنے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل بھیجنے دیا۔
امریکی نیوز ویب سائٹ انٹرسیپٹ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج دلانے کے بدلے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے. انٹرسیپٹ نے پاکستان اور امریکہ میں اپنے خصوصی ذرائع کے ساتھ اس رپورٹ کو شائع کیا ہے جس میں پاکستانی اور امریکی حکومت کے اندرونی معاہدے کی دستاویزات کی تصدیق کے ساتھ اس کو شائع کیا گیا ہے.
اسلحے کی فروخت یوکرین کی فوج کو سپلائی کرنے کے مقصد سے کی گئی تھی – جس میں پاکستانیوں کی شمولیت کو ایک ایسے تنازعے میں شامل کیا گیا تھا جس میں اسے فریق بننے کے لیے امریکی دباؤ کا سامنا تھا۔
اسلحے کی فروخت کا یہ خفیہ معاہدہ یوکرین کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھنے کی نیت سے کیا گیا ہے. اس میں پاکستانیوں کو ایک ایسے تنازعے میں شامل کیا گیا ہے . جس سے ان کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں یاد رہے امریکہ کاشروع دن سے س اس تنازع میں پاکستان پر فریق بننے کا دباؤ تھا.
امریکی اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی حکومت میں اس پر عمل درامد ہوتا نظر نہیں آرہا تھا اس لیے پہلے ریجیم چینج آپریشن کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا گیا.
یہ انکشاف مالی اور سیاسی اشرافیہ کے درمیان پردے کے پیچھے کی چالوں کی ایک کھڑکی ہے جو عوام کے سامنے شاذ و نادر ہی کھلتی ہے، یہاں تک کہ عوام اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سےعائد کی گئی سخت ڈھانچہ جاتی پالیسی اصلاحات نے ملک میں جاری احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان اقدامات کے ردعمل میں حالیہ ہفتوں میں پاکستان بھر میں بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔
یہ مظاہرے ملک میں ڈیڑھ سال سے جاری سیاسی بحران کی تازہ ترین پیشرفت ہیں۔ اپریل 2022 میں، پاکستانی فوج نے، امریکہ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ، وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے عدم اعتماد کے ووٹ کو منظم کرنے میں مدد کی۔ برطرفی سے قبل،امریکی محکمہ خارجہ کے سفارت کاروں نے نجی طور پر اپنے پاکستانی ہم منصبوں پر غصے کا اظہار کیا جس کی وجہ انہوں نے خان کی قیادت میں یوکرائن کی جنگ پر پاکستان کےاصولی طور پر سختی سے غیر جانبدار رہنےکاموقف قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر خان برسراقتدار رہے تو پاکستان کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہ اگرانہیں ہٹایا دیا گیا تو “سب معاف کر دیا جائے گا۔
خان کی معزولی کے بعد سے، پاکستان یوکرائن جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ایک مفید حامی کے طور پر ابھرا ہے، جس کی امداد اب آئی ایم ایف کے قرض سے ادا کی گئی ہے۔ ہنگامی قرض نے نئی پاکستانی حکومت کو معاشی تباہی کو ختم کرنے اور انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کا موقع فراہم کیا –
یوکرین جنگی سازوسامان اور ہارڈویئر کی دائمی قلت سے دوچار ہے، رواں برس اپریل میں یوکرینی فوج کے ایک کمانڈر کی جانب سے انھیں ملنے والے پاکستانی اسلحے کے ’غیرمعیاری‘ ہونے کے دعوے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ آیا پاکستان یوکرین میں روسی فوج سے برسرپیکار فوجیوں کو اسلحہ دے رہا ہے یا نہیں۔، حالانکہ نہ تو امریکہ اور نہ ہی پاکستان نے اس بات کی تصدیق کی ہے.
دی انٹرسیپٹ کے مطابق اسلحے کے لین دین کی تفصیلات کے ریکارڈ اس سال کے شروع میں پاکستانی فوج کے ایک ذریعے نے دی انٹرسیپٹ کو فراہم کیے تھے۔
دستاویزات میں 2022 کے موسم گرما سے 2023 کے موسم بہار تک امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگی سازوسامان کی فروخت کی وضاحت کی گئی ہے. کچھ دستاویزات پر امریکی برگیڈیر جنرل کے دستخط ہیں.
دستاویزات کے مطابق، ہتھیاروں کے سودے گلوبل ملٹری پراڈکٹس کے ذریعے کیے گئے، جو گلوبل آرڈیننس کی ایک ذیلی کمپنی ہے، جو کہ ایک متنازعہ اسلحہ ڈیلر ہے جس کی یوکرین میں معروف شخصیات کے ساتھ تعلقات پر نیویارک ٹائمز نے خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔
منی ٹریل کا خاکہ پیش کرنے والی دستاویزات اور امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں امریکی اور پاکستانی معاہدے، لائسنسنگ، اور یوکرین کے لیے پاکستانی فوجی ہتھیار خریدنے کے لیے امریکی نمائندگی کے سودوں سے متعلق دستاویزات شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان کے حامیوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود امریکی حکومت بڑی حد تک خاموش رہی ہے.