“خباز” اہل عرب کی خواتین کا قدیم پیشہ
عہد رسالت اور قبل از اسلام میں عرب میں خباز “تندور پر روٹیاں لگانے والی” کا کام باقاعدہ خواتین بطور پیشہ کرتی تھیں۔ عمومی طور پر چکی سے آٹا پیسنا، جو اتنا وقت طلب اور محنت طلب کام ہوتا تھا کہ گیہوں یا جو سے آٹا پیسنے کے بعد کچھ خواتین جو بطور خباز کام کرتی تھی، تمام عرب کی عورتیں ان کے پاس جا کر روٹیاں لگوا کر گھر لے آتی تھیں۔ اس کے بدلے میں عموما ایندھن کے طور پر لکڑی گیہوں یا پسا ہوا آٹا یا رقم ماہانہ بنیادوں پر طے ہوتی تھی۔ کئی صحابیہ کا ذکر اس ضمن میں آپ کو اسلامی تاریخ میں مل جائے گا، خواتین کا بطور خباز کام کرنا آج بھی پورے عرب میں اسی طرح سے رائج ہے، دیہی علاقوں میں باقاعدہ خواتین یہی کام کرتی ہیں اور شہری علاقوں میں جو بیکریاں ہیں، وہاں بھی زیادہ تر خواتین ہی نظر آتی ہیں، یہ معاملہ آپ کو پورے عرب یعنی لبنان، مصر، شام، فلسطین، اردن یمن حتی کہ قدیم سعودی عرب میں بھی ملتا ہے، نہ صرف یہاں پر ملتا ہے بلکہ افریقہ کے عرب ممالک میں آج بھی خواتین اس کام سے بطور پیشہ جڑی ہوئی ہیں۔
بدقسمتی سے اہل بر صغیر کے مذہبی اذہان پر ہی بات کرنا پڑے گی، یہاں کے کلچر میں آپ کو کئی جگہ پر اس کی ممانعت محسوس ہوتی نظر آئے گی، وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی مثال چکی پیسنے ہر دے دیتے ہیں، کبھی یہ بھی بتا دیا کریں کہ سیدہ فاطمہ روٹیاں لگوانے کے لئے خباز کے پاس ہی بھجوادیا کرتی تھیں، ہمارے برصغیر میں ما سوائے اہل پنجاب کے، مجھے اپنا بچپن یاد ہے، میں نے پنجاب کے کئی علاقوں میں روٹیاں لگانے والے تندور عورتوں کو چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ جہاں پر کچھ لوگ نقد رقم کے بدلے میں روٹیاں لے لیتے ہیں، یا اپنا آٹا لے جاتے ہیں۔ جس میں سے کچھ مقدار آٹے کی تندور والی خاتون رکھ لیتی ہیں اور باقی وہ روٹیاں لگا دیتی ہیں کیونکہ گیس آنے سے پہلے گھریلو زندگی میں سالن ترکاری بنانا بچوں کو سنبھالنا اور دوسرے معاملات کے بعد شدید گرمی میں چولہے پر روٹی لگانا ایک اضافی و وقت طلب کام ہوتا تھا۔ پختون معاشرت میں اس میں تھوڑی سی تبدیلی یہ موجود ہے بہرحال وہاں پر کئی گھروں میں تندور سے ہی روٹی آتی ہے، لیکن تندور زیادہ تر مرد چلاتے ہیں۔ مگر یہ والی بدقسمتی دیکھ لیں کہ ہمارے ہاں اکثر مذہبی اذہان سوشل میڈیا پر اس طرح کی پوسٹ لگاتے ہیں، جس میں تندور سے روٹی لینے والے شخص کی بیوی کو برا بھلا کہتے ہیں۔ مزید پھر گول روٹیوں کا تو ایک الگ معاملہ ہے۔
بہرحال یہ میرا موضوع نہیں ہے بس ایک اصولی سی بات یہ تھی کہ زمانہ قدیم نے یورپ میں بھی گیہوں اور معدے سے بننے والی روٹیوں کی وہ اقسام جو یورپین ممالک میں کھائی جاتی ہیں، وہ گھروں میں تیار نہیں ہوتی تھی، بلکہ ان کے لیے الگ دکانیں تندور یا بیکریاں ہی ہوتی تھی، ترکی، شام، لبنان، فلسطین، افریقی عرب ممالک غرض ہر جگہ آپ کو ایک اج بھی گھریلو عورتیں اپنی امدن میں اضافے کے لیے کلی طور پر اس پیشے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اگر آپ کو وقت کی آسانی ہو تو گھروں میں روٹیاں نہیں بنانی چاہیے، لیکن گھریلو کاموں کے ساتھ اگر کچھ لوگ بازار سے روٹیاں منگواتے ہیں تو اسے برا نہیں سمجھنا چاہیے اور جس کلچر میں خواتین کو ایسے کاموں سے روکا جاتا ہے، مذہب کے نام پر انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ پیشہ اسلام کا ایک روشن باب اور مقدس پیشہ ہے۔
سعودی عرب میں بھی جب خواتین کو کاموں کے لیے ترویج دی گئی ہے تو اس میں بیکریوں میں خصوصا ایک بڑا کوٹہ خواتین کے لیے رکھا گیا ہے، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں بھی آج بھی کئی بیکریاں مکمل طور پر خواتین چلاتی ہیں۔ فلسطین، مصر، شام و لبنان میں خصوصا عربوں میں روٹیوں کی بہت ساری اقسام معروف ہیں، یہاں بھی قدیم زمانوں سے عورتیں ہی روٹیاں پکا رہی ہیں اور اسے بطور پیشہ ایسے تندور قدیم زمانوں سے موجود ہیں، جہاں ہر ان محلوں کے لوگ اپنی روٹیاں لگواتے ہیں اور مہینے کے آخر میں انہیں لکڑیاں ایندھن، گندم یا نقد رقم ادا کرتے ہیں۔ ویسے ماضی میں یورپ میں بھی یہ ایک باقاعدہ خواتین کا ہی شعبہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور تمام گھریلو عورتیں ضروری نہیں ہیں کہ لازمی روٹیاں پکائیں تندور سے بھی روٹیاں منگوائی جاسکتی ہیں۔
یہ تصاویر زیادہ تر فلسطین کی ہیں، مگر کچھ لبنان و دوسرے ممالک کی بھی ہیں۔ اس میں لبنان و شام کے تندور بھی دکھائے گئے ہیں جہاں پر ان کی روایتی روٹیاں منوشے جن پر پنیر زیتون، پالک، قیمہ و زعتر وغیرہ کے ساتھ تندور میں لگائی جاتی ہیں۔
تحریر : منصور ندیم