پہلے ہم اشکن تھے پھر دیدۂ نم ناک ہوئے
اک جوئے آب رواں ہاتھ لگی پاک ہوئے
اور پھر سادہ دلی دل میں کہیں دفن ہوئی
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چالاک ہوئے
اور پھر شام ہوئی، رنگ اڑے جام بنے
اور پھر ذکر چھڑا، تھوڑے سے غم ناک ہوئے
اور پھر آہ بھری اشک بہے، شعر کہے
اور پھر رقص کیا، دھول اڑی، خاک ہوئے
اور پھر ہم کسی پاپوش کا پیوند بنے
اور پھر اپنے بھی چرچے سر افلاک ہوئے
اور پھر یاد کیا اسم پڑھا، پھونک دیا
اور پھر کوہ گراں بھی خس و خاشاک ہوئے
ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر
یہ جو راتوں کو مجھے خواب نہیں آتے عطاؔ
اس کا مطلب ہے مرا یار خفا ہے مجھ سے
زندگی خواب ہے اور خواب بھی ایسا کہ میاں
سوچتے رہیے کہ اس خواب کی تعبیر ہے کیا
سڑک پہ بیٹھ گئے دیکھتے ہوئے دنیا
اور ایسے ترک ہوئی ایک خودکشی ہم سے
نارسائی نے عجب طور سکھائے ہیں عطاؔ
یعنی بھولے بھی نہیں تم کو پکارا بھی نہیں
یہ جو راتوں کو مجھے خواب نہیں آتے عطاؔ
اس کا مطلب ہے مرا یار خفا ہے مجھ سے
زندگی خواب ہے اور خواب بھی ایسا کہ میاں
سوچتے رہیے کہ اس خواب کی تعبیر ہے کیا
سڑک پہ بیٹھ گئے دیکھتے ہوئے دنیا
اور ایسے ترک ہوئی ایک خودکشی ہم سے
نارسائی نے عجب طور سکھائے ہیں عطاؔ
یعنی بھولے بھی نہیں تم کو پکارا بھی نہیں
لوگ ہنستے ہیں ہمیں دیکھ کے تنہا تنہا
آؤ بیٹھیں کہیں اور ان پہ ہنسیں ہم اور تم
کسی کو خواب میں اکثر پکارتے ہیں ہم
عطاؔ اسی لیے سوتے میں ہونٹ ہلتے ہیں
ہم آج ہنستے ہوئے کچھ الگ دکھائی دیے
بہ وقت گریہ ہم ایسے تھے، سارے جیسے ہیں
میں تیری روح میں اترا ہوا ملوں گا تجھے
اور اس طرح کہ تجھے کچھ خبر نہیں ہونی
کسی بزرگ کے بوسے کی اک نشانی ہے
ہمارے ماتھے پہ تھوڑی سی روشنی ہے نا
ویسا ہی خراب شخص ہوں میں
جیسا کوئی چھوڑ کر گیا تھا
ہماری عمر سے بڑھ کر یہ بوجھ ڈالا گیا
سو ہم بڑوں سے بزرگوں کی طرح ملتے ہیں
پھر کوئی دور ہوا جاتا ہے
پھر کوئی دل کے قریب آئے گا
ہنستے ہنستے ہو گیا برباد میں
خوش دلی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا
یہ ترا ہجر عطا درد عطا کرب عطا
اب عطاؔ کیسے جیے تیری عطاؤں کے بغیر