اردو شاعری

بہترین اردو شاعری اور مشہور غزلیں : لازوال ادب

بہترین اردو شاعری اور مشہور غزلیں : لازوال ادب

اردو شاعری، اپنی خوبصورت شاعری اور سریلی غزلوں کے ساتھ، پاکستان کے ثقافتی ورثے کا اہم حصہ ہے، جو اپنی گہرائی اور لسانی خوبصورتی سے لاکھوں دلوں کو موہ لیتی ہے۔ مرزا غالب سے لے کر فیض احمد فیض تک، اردو شاعری 2025 میں بھی اپنا جادو جگاتی ہے، خاص طور پر Urdu Publisher | اردو پبلشر جیسی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے۔ یہ گائیڈ بہترین اردو شاعری، مشہور غزلوں، اور ان کے اصل اردو متن کے ساتھ انگریزی تشریح پیش کرتی ہے، تاکہ آپ اس فن کو بہتر سمجھ سکیں۔

اردو شاعری اور غزلیں کیا ہیں؟

شاعری جذبات جیسے محبت، جدائی، یا فلسفے کو مختصر، چھوٹے اشعار (شعر) میں بیان کرنے کا فن ہے۔ غزل ایک ایسی شاعری ہے جو کئی اشعار پر مشتمل ہوتی ہے، جو اکثر موسیقی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے، اور اس کے موضوعات محبت، تصوف، یا سماجی مسائل ہوتے ہیں۔

شاعری: مختصر، دو مصرعوں کے اشعار، جو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے لیے موزوں ہیں۔

غزل: لمبی، سریلی نظمیں، جو مشاعروں یا گلوکاروں جیسے مہدی حسن کے ذریعے مقبول ہیں۔

اہمیت: 2025 میں، Urdu Publisher | اردو پبلشر جیسے پلیٹ فارمز پر اردو شاعری پاکستان کے 24 کروڑ عوام کو ان کے ادبی ورثے سے جوڑتی ہے ()۔

بہترین اردو شاعری: مشہور اشعار

حقیقتوں سے بھی بہت دور تھی خواہش میری…
پھر بھی خواہش تھی کہ اک خواب حقیقت ہوتا

سب کو سیرابِ وفا کرنا خود کو پیاسا رکھنا
مجھ کو لے ڈوبے گا اے دل تیرا دریا ہونا

یوں ہے کہ یہاں نام و نشاں تک نہیں تیرا
اور تجھ سے بھری رہتی ہے تنہائی ہماری

خوشیاں ہمارے پاس کہاں مستقل رہیں
باہر کبھی ہنسے بھی تو گھر آ کے رو پڑے..

ہِجر بِیتا تو خدُوخال سلامت تھے مگر
رنگ چہرے کا گیا ہونٹ گُلابی نہ رہے

خدا کرے تجھے سب حاصل ہو۔۔
خدا کرے تجھے سب سے زیادہ میری طلب ہو !

غیر الفت کا راز کیا جانے
لطف ناز و نیاز کیا جانے

نیم جانوں پہ کیا گزرتی ہے
نرگس نیم باز کیا جانے

میرے طول شب جدائی کو
تیری زلف دراز کیا جانے

پاک بازان مے کدہ کا مقام
جو نہ ہو پاک باز کیا جانے

میرے نصیبِ شوق میں لکھا تھا یہ مقام
ہر سو تیرے خیال کی دنیا ہے، تو نہیں..

اندازہ ہماری محبت کا سب لگا لیتے ہیں
آپ کا نام سن کر جو ہم مسکرا پڑھتے ہیں

کچھ تو میرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ

مجھے بغیر کسی وجہ کے پکار لیا کریں
مجھے آپکی آواز سے محبت ہے..

ہم پاؤ ں بھی پھیلائیں تو محتاط بہت ہیں
چادر سے یا اوقات سے باہر نہیں ہوتے
اول تو میسر ہی نہیں ہوتے کسی کو
خوش بختی سے مل جائیں تو وافر نہیں ہوتے

تیرے قریب رہوں یہ بھی اختیار نہیں
میں تجھ سے دور کہاں جاؤں ہر طرف تو ہے.

ہم تھے بھٹکے ہوئے رہنما مل گیا ﷺ
روشنی مل گئی راستہ مل گیا ﷺ

بد نصیبوں کی پیشانیاں کھل اُٹھیں
سجدہء شوق کو نقشِ پا مل گیا ﷺ

سب رسوماتِ کُہنہ مٹا دی گئیں
خوش نصیبوں کو قبلہ نما مل گیا ﷺ

بہت کوشش کرتا ہوں اندھیرے ختم ہوں لیکن
کہیں جگنو نہیں ملتا, کہیں پر چاند آدھا ھے..

کمالِ حسن اگر مو قوفِ اندازِ تغافل ہو
تکلف بر طرف تجھ سے تری تصویر بہتر ہے

جو کچھ تھا نہ کہنے کا سب کہہ گیا دیوانہ
سمجھو تو مکمل ہے اب عشق کا افسانہ

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے

میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

تم اس کا ذکر کرو تو زباں ادھر جائے
وہ لکھنو کا تَلّفظ وہ شین قاف بدن

لوگوں نے کتنے مفہوم نکالے ہیں
اک لڑکی کیا میرے برابر بیٹھ گئی

پھل دار کے نصیب میں ہے پتھروں کی چوٹ۔!!
یہ حوصلہ نہیں تو پھر بے ثمر رہو ۔۔!!

معلوم ہی تھا کچھ نہیں ہو گا حاصل لیکن
وہ عشق ہی کیا جس میں خود کو نہ گنوایا جائے

شباب اپنا کام ختم کر گیا
شعور رہ گیا ندیم مر گیا

رات کی آنکھیں نیند سے بوجھل، خواب کہاں تک جاگیں گے
سوئے شہر، ٹھکانے، جنگل، خواب کہاں تک جاگیں گے……

برسوں کی تنہائی میں تو یادیں بھی تھک جاتی ہیں
کھیل،کتابیں، گلیاں، پیپل، خواب کہاں تک جاگیں گے

شرم سے پانی ہو جانے کو چاہے جی
جڑ کر میرے ساتھ ہے بیٹھا توبہ ہے

چوڑی توڑے چٹکی کاٹے چھپ جائے
میری اس دل دار سے توبہ توبہ ہے

وہ میری آنکھ سے نکلا ہوا ہجرت زدہ شخص
ایسی محفوظ پناہوں کو ترستا ہوگا۔۔۔

اسطرح چھوڑ کے تنہا مجھے جانے والے
تو نے سوچا ھے کوئی کیسے سنبھلتا ہوگا ؟

عشقِ یار سے سیراب تھی میری چاہت
میں سراپا محبت تھا جنون کی حد تک

نَظر سے گُفتگُو، خاموش لَب تمھاری طرح ….
غزل نے سِیکھے ہیں انداز سب تمھاری طرح …

بُلا رہا ہے ____ زمانہ، مگر ترستی ہُوں ….
کوئی پُکارے مُجھے بے سَبَب تمھاری طرح …

کسی کے عشق میں ماں باپ کو آنکھیں دکھاتے ھو
اگر یہ عشق ھے تو پھر بد تمیزی کس کو کہتے ہیں

نیند میری چھین کر اداے دلبری سے
وعدہ وہ کر رہے ہیں آ نے کا خواب میں

ہر دم تجھے یاد کروں دعاؤں میں
تو صدا خوش رہے محبت کی چھاؤں میں
عزت ہو تیری سب کی نگاہوں میں
کوئی غم نہ ملے زندگی کی راہوں میں

جب دن چڑھا بدن پہ بدن سی سجی قمیص
اُتری جو رات گھر میں بدن رات کی قمیص

اُس کا درشت لہجہ اُسے اِس طرح پھبا
سلکی بدن پہ جیسے سجے کھردری قمیص

جی چاہتا ہے آج الگنی یہ دیکھیے
ساری وہی سپید وہی کاسنی قمیص

رہتی ہے ان کے رخ پہ شگفتہ سی برہمی
یہ طرزِ التفات ہے یا اجتناب ھے

ہوتا نہیں عیاں کبھی ان کے مزاج سے
نیت خراب ہے کہ طبیعت خراب ھے۔

کس سے بچھڑی کون ملا تھا بھول گئی
کون برا تھا کون تھا اچھا بھول گئی

کتنی باتیں جھوٹی تھیں اور کتنی سچ
جتنے بھی لفظوں کو پرکھا بھول گئی

چاروں اور تھے دھندلے دھندلےچہرے سے
خواب کی صورت جو بھی دیکھا بھول گئی

تصور زلف کا ہے اور میں ہوں

بلا کا سامنا ہے اور میں ہوں

آباد ہے وہ اپنے جزیرے پہ اور ہم
پھرتے ہیں طُور طُور تجلی لیے ہوئے

چپ چاپ میں خدا کی طرف دیکھتا رہا
کاسے میں ایک جھوٹی تسلی لیے ہوئے

تو نے اے وقت ، پلٹ کر بھی کبھی دیکھا هے ؟
کیسے هیں سب ، تری رفتار کے مارے هوئے لوگ۔

روز کسی پر دل آ جانا عشق نہیں بیماری ھے
شعر بھی وہ مقبول ھوئے ہیں جن میں بات تمھاری ھے

گال کی جانب جھکتی ہے شرماتی ہے ہٹ جاتی ہے
آج ارادہ ٹھیک نہیں ہے جان تمہاری بالی

تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کے سورج ہو جو ڈھل جاؤ گئے

نہ میرے خواب بدلے، نہ کوئ تعبیر بدلی ہے
نہ دن بدلے ہیں میرے،نہ میری تقدیر بدلی ہے.

وہی فرمان شاہی ہے، وہی ہے اذن سلطانی
وہی سکہ ہے رائج اس پہ بس تصویر بدلی ہے.

میری آنکھوں سے پٹی کھول دو کہ آج میں دیکھوں
کہ آزادی ملی ہے یا فقط زنجیر بدلی ہے.

وہ جو ایک شام تھی خواب سی،کہیں کھو گئی
وہ جو ایک دن تھا عذاب سا ،وہ ڈھلا نہیں.

وہ میری آنکھ سے نکلا ہوا ہجرت زدہ شخص
ایسی محفوظ پناہوں کو ترستا ہوگا۔۔۔

اسطرح چھوڑ کے تنہا مجھے جانے والے
تو نے سوچا ھے کوئی کیسے سنبھلتا ہوگا ؟

میں تجھ سے عشق فرماتا رہوں گا
اسی مصرے کو دہراتا رہوں گا

رہوں گا دور تیری دسترس سے
پر اتنا ہے نظر اتا رہوں گا

تلاش نہ کر سکو گے پھر مجھے وہاں جا کر بھی
غلط سمجھ کر جہاں تم نے کھو دیا تھا مجھے.

دل شکنیاں کہیں پہ تو دلداریاں کبھی
ہم سے نہ ہو سکیں یہ اداکاریاں کبھی

بیشک تو جان جاں ہے ، مگر اتنا جان لے
خود سے بھی ہونے لگتی ہیں بیزاریاں کبھی

درگزر کرتے ہم تیری ہر اک لغزش سے مگر
دل مرمت نہیں ہوتا جذبات رفو نہیں ہوتے

تیری یادوں میں ڈوبا رہتا ہوں روز و شب
تو بھی تو کبھی میرے دل کو بہلانے کے لیے آ۔

خوابوں میں چھپ کر بھی تجھے پکارا میں نے
کبھی حقیقت میں بھی تو میرے لبوں پہ آ۔

دل کی دنیا کو تیری خوشبو سے سجایا ہے
کچھ تو مرے عشق کا اقرار بھی سننے کے لیے آ۔

تُم اب تک منافق دِلوں میں رہی ہو
میرے دِل کی آب و ہوا مختلف ہے..

بڑا طویل صدمہ رہے گا
تیری مختصر سی محبت کا..

جھوٹے لبوں کی مسکان میں وہ صداقت نہیں
میرے دل کے جذبات کی روشنی الگ ہے

جو وعدے تم نے کیے، وہ ہوا کی طرح بکھر گئے
میری امیدوں کی رہگزر میں سکون مختلف ہے

چاہت میں تمہاری تو فریب کی گلیاں ہیں
میرے دل کے راستوں میں محبت کی فضاء مختلف ہے

کتاب, معرفت کے بھولتے قاعدے میں ہے رضواں۔
جو اپنے آپ کو پہچانتے ہیں پاک ہوتے ہیں

ے ترک تعلق پہ تُلے شخص خبردار !!!
تیری تو کسی اور سے بنتی بھی نہیں ہے

مت بانٹ محبت کہ ترے پاس تو جتنی
مجھ ایک کو درکار ہے اُتنی بھی نہیں ہے

عادت کی تحویل میں کوئی کتنا پاگل ہو جاتا ہے
مجھ سے فون پکڑتے ہی وہ نمبر ڈائل ہو جاتا ہے
عورت پیار میں شاید مرد سے بڑھ کر اندھی ہوتی ہے
ورنہ اس کی نظروں سے تو پتھر گھائل ہو جاتا ہے
کہتا ہے کہ ماہِ نو تم کتنی ظالم لڑکی ہو
تم سے مل کر سگریٹ کا تو اثر ہی زائل ہو جاتا ہے

ٹوٹے ہوئے دلوں کا مداوا نہ ہو سکا
کچھ زخم ایسے تھے کہ وہ بھرنا نہ ہو سکا

شہروں کے شیشہ گر نے عجب کھیل کھیل دیے
ٹکڑوں کو جوڑنا بھی مقدر نہ ہو سکا

آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں رہی
چہرہ مگر یہ ہم سے بدلنا نہ ہو سکا

حسن ہے اور حسین ہی نہیں ہے
یہ محبت کا سین ہی نہیں ہے

چلتے چلتے یہاں تک آ گیا ہوں
اس کے آگے زمین ہی نہیں ہے

اب اندھیرے سے ہاتھ سینک تا ہوں
روشنی پر یقین ہی نہیں ہے

جس کا منکر ہوں مولوی صاحب
وہ محمدﷺ کا دین ہی نہیں ہے

آخری ٹیس آزمانے کو
جی تو چاہا تھا مسکرانے کو

یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو

سنگریزوں میں ڈھل گئے آنسو
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

زخم نغمہ بھی لو تو دیتا ہے
اک دیا رہ گیا جلانے کو

بانٹ دو خواب تسلی سے نئے لوگوں میں
اس تسلی سے کہ تقسیم ادھوری نہ رہے

اب کسی اور پہ مت وردِ محبت پڑھنا
اب کسی اور کی تعلیم ادھوری نہ رہے

سانس لینے سے بھی بھرتا نہیں سینے کا خلا
جانے کیا شے ہے جو بے دخل ہوئی ہے مجھ میں.

یوسف نہیں ہوں مصر کے بازار میں نہ بیچ
میں تیرا انتخاب ہوں ارزاں نہ کر مجھے

آئینہ سکوت نہ رکھ سب کے روبرو
میں دل پے نقش ہوں تو نمایاں نہ کر مجھے

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں