عالمی پلاسٹک معاہدے

عالمی پلاسٹک معاہدے کی کوشش- جنیوا

جنیوا میں 5 سے 14 اگست 2025 تک اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی پلاسٹک معاہدے کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں، جن کا مقصد پلاسٹک کی آلودگی کے عالمی بحران سے نمٹنا ہے۔ یہ مذاکرات بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی (INC-5) کے پانچویں اور فیصلہ کن اجلاس کا حصہ ہیں، جو 2022 میں شروع کیے گئے تھے۔ ذیل میں اس کی تفصیلات ہیں:

مذاکرات کا پس منظر
شروعات: 2022 میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے ایک قانونی طور پر پابند معاہدے پر اتفاق کیا تھا، جس کا ہدف 2024 تک مکمل کرنا تھا۔
پچھلی ناکامی: دسمبر 2024 میں جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے، کیونکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک (جیسے سعودی عرب، ایران، روس) نے پلاسٹک کی پیداوار محدود کرنے کے بجائے فضلے کے انتظام پر زور دیا۔
جنیوا اجلاس: 180 سے 184 ممالک کے نمائندوں اور 600 سے زائد غیر سرکاری تنظیموں کے 1,900 شرکاء اس اجلاس میں شریک ہیں، جو معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پلاسٹک کی آلودگی کا بحران
حجم: ہر سال دنیا بھر میں 460 ملین ٹن پلاسٹک تیار ہوتا ہے، جس میں سے نصف ایک بار استعمال ہونے والی اشیاء کے لیے ہے۔ صرف 9-15% پلاسٹک ری سائیکل ہوتا ہے، جبکہ 22% ناقص طریقے سے سنبھالا جاتا ہے اور ماحول میں پھیل جاتا ہے۔
صحت کے اثرات: مائیکرو پلاسٹک انسانی جسم، سمندروں، اور بلند ترین چوٹیوں تک پہنچ چکا ہے۔ یہ دل کی بیماریوں، کینسر، اور تولیدی مسائل کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ دی لینسٹ کی رپورٹ کے مطابق، پلاسٹک کی آلودگی سے عالمی معیشت کو سالانہ 1.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔
مستقبل کے خدشات: اگر اقدامات نہ کیے گئے تو 2060 تک پلاسٹک کا فضلہ تین گنا اور 2040 تک ماحولیاتی اخراج 50% بڑھ جائے گا۔

مذاکرات کے اہم نکات
مقاصد:
– پلاسٹک کی پوری زندگی (پیداوار، استعمال، اور تلفی) کو منظم کرنے والا معاہدہ بنانا۔
– زہریلے کیمیکلز (جیسے فتھالیٹس اور PFAS) پر پابندی لگانا۔
– پلاسٹک کی پیداوار پر عالمی حدود طے کرنا۔
تنازعات:
– کچھ ممالک (خاص طور پر ترقی یافتہ) پیداوار محدود کرنے اور زہریلے کیمیکلز پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک صرف فضلے کے انتظام پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔
– 300 سے زائد متنازع نکات پر بات چیت جاری ہے، جن میں پیداوار کی حد اور کیمیکلز کی فہرست اہم ہیں۔
پاکستان کا مؤقف: پاکستان نے منصفانہ ذمہ داری پر زور دیا اور پلاسٹک فنڈ اور کریڈٹ مارکیٹ کی تجویز پیش کی، جس میں زیادہ کھپت والے ممالک (جیسے یورپ، جہاں فی کس 150 کلوگرام پلاسٹک استعمال ہوتا ہے بنسبت پاکستان کے 7 کلوگرام) مالی تعاون فراہم کریں۔

اہم چیلنجز
تیل کی صنعت کی لابی: تیل پیدا کرنے والے ممالک اور پلاسٹک انڈسٹری کی لابیاں سخت معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
سفارتی دباؤ: ترقی پذیر ممالک، جیسے پاکستان، پلاسٹک فضلے کا “ڈمپنگ گراؤنڈ” بننے سے بچنا چاہتے ہیں۔)
عالمی اتفاق رائے: 300 سے زائد اختلافات کو حل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

امیدیں اور توقعات
– اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی سربراہ انگر اینڈرسن نے کہا کہ بوسان کے بعد سفارتی کوششوں سے نئی تحریک پیدا ہوئی ہے، اور جنیوا میں معاہدہ ممکن ہے۔
– گرین پیس اور دیگر NGOs پلاسٹک کی پیداوار کم کرنے، زہریلے کیمیکلز پر پابندی، اور مالی وسائل کے ذریعے پلاسٹک سے پاک مستقبل کی طرف منتقلی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
– مذاکرات کی سربراہ جیوتی ماتھر فلپ کے مطابق، 2024 میں 500 ملین ٹن پلاسٹک استعمال ہوا، جس کا 399 ملین ٹن فضلہ ماحول میں موجود ہے۔

عوامی اور سماجی ردعمل
– 4 اگست 2025 کو جنیوا میں گرین پیس، بریک فری فرام پلاسٹک، اور دیگر گروپوں نے مظاہرہ کیا، جس میں پلاسٹک سے پاک مستقبل کا مطالبہ کیا گیا۔
– کینیڈین آرٹسٹ بنجامن وان وونگ نے پلاسٹک کے ڈھیر میں دبے ’دی تھنکر‘ کے مجسمے کے ذریعے بحران کی شدت کو اجاگر کیا۔

نتائج کے امکانات
– اگر معاہدہ طے پا جاتا ہے، تو یہ پلاسٹک کے ڈیزائن سے لے کر اس کی تلفی تک ہر مرحلے کو منظم کرے گا، جو پیرس موسمیاتی معاہدے جتنا اہم ہو سکتا ہے۔
– تاہم، تیل کی صنعت اور بعض ممالک کی مخالفت کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں، اور ایک کمزور معاہدے کا خطرہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں