کاربن میں کمی

جانوروں کی بدولت کاربن میں کمی کی نئی امید

ماحولیاتی تبدیلی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے اخراج نے کرہ ارض کو خطرے میں ڈال دیا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جانور اس بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ جنگلی حیات سے لے کر مویشیوں تک، جانور مختلف طریقوں سے کاربن کی کمی کی نئی امید جگا رہے ہیں۔ پاکستان، جہاں “ٹین بلین ٹری سونامی” جیسے ماحول دوست منصوبوں نے عالمی توجہ حاصل کی، جانوروں کی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.
جانور کاربن کی کمی میں کیسے مدد کرتے ہیں؟

جانور فطرت کے توازن کو برقرار رکھنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) جذب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے چند اہم طریقے درج ذیل ہیں:
جنگلی حیات اور جنگلات کا تحفظ:
جنگلی جانور، جیسے ہاتھی، گینڈے، اور پرندے، بیجوں کو پھیلاتے ہیں، جو جنگلات کی افزائش میں مدد دیتے ہیں۔ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، جو عالمی حرارت (global warming) کو کم کرتا ہے.
افریقہ میں ہاتھی درختوں کے بیج پھیلاتے ہیں، جو کاربن جذب کرنے والے جنگلات بناتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، جنگلات ہر سال 18 ملین ایکڑ رقبے سے کاربن جذب کرتے ہیں.
مناسب چراگاہوں کا انتظام (rotational grazing) مٹی میں کاربن کو ذخیرہ (carbon sequestration) کرتا ہے۔ گائیں اور بکریاں گھاس کو چرتے ہوئے مٹی کی زرخیزی بڑھاتی ہیں، جو کاربن کو جذب کرتی ہے.
آسٹریلیا اور امریکہ میں پائیدار چراگاہوں نے مٹی میں 1-2 ٹن کاربن فی ایکڑ سالانہ ذخیرہ کیا .
سمندری جانور، جیسے وہیل اور مچھلیاں، سمندری پودوں (seagrass) اور پلانکٹن کی افزائش میں مدد دیتے ہیں، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ وہیل اپنی فضلہ سے سمندری پودوں کی نشوونما بڑھاتی ہیں.
ایک وہیل اپنی زندگی میں اوسطاً 33 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے میں مدد دیتی ہے، جو درجنوں درختوں کے برابر ہے.
گوشت کی کھپت کم کرنے سے مویشیوں سے نکلنے والی میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسیں کم ہوتی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، گوشت کی مقدار کم کرنے سے گرین ہاؤس گیسوں میں 30% کمی ممکن ہے.
برطانیہ میں گوشت کی کھپت میں 30% کمی کا ہدف 2032 تک کاربن اخراج کو کم کرے گا .

پاکستان، جو ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہے، جانوروں کی بدولت کاربن کی کمی کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے:

پاکستان کے مارگلہ ہلز اور چترال کے جنگلات میں پرندوں اور چھوٹے جانوروں (جیسے گلہریوں) کی بدولت بیجوں کی تقسیم سے جنگلات کی بحالی ممکن ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے چراگاہوں میں پائیدار مویشی پالن سے کاربن کی سطح کم کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے جدید تربیت درکار ہے۔
بحیرہ عرب میں مینگروز اور سمندری حیات (جیسے ڈولفن) کی حفاظت سے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں کاربن جذب بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان میں گوشت کی کھپت بڑھ رہی ہے، لیکن پودوں پر مبنی خوراک (جیسے دالوں) کو فروغ دینے سے کاربن اخراج کم ہو سکتا ہے۔
پاکستانی یونیورسٹیوں میں گرین کلبز ماحولیاتی شعور بیدار کر رہے ہیں، جو جانوروں کے تحفظ کو فروغ دے سکتے ہیں.

کاربن کی کمی کے لیے جانوروں کے کردار کو بڑھانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

جنگلی حیات کا تحفظ: جنگلی جانوروں کے رہائشی علاقوں کی حفاظت اور غیر قانونی شکار کی روک تھام۔
چراگاہوں کے جدید انتظام سے مٹی میں کاربن ذخیرہ کیا جائے، جیسے آسٹریلیا کے ماڈلز
بحیرہ عرب میں مینگروز اور سمندری جانوروں کی حفاظت کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں۔
اسکولوں اور میڈیا کے ذریعے جانوروں کے ماحولیاتی فوائد کی آگاہی پھیلائی جائے، جیسے گرین کلبز کے ذریعے
جانور، چاہے جنگلی ہوں، سمندری ہوں، یا مویشی، کاربن کی کمی کی نئی امید ہیں۔ جنگلات کی بحالی، مٹی میں کاربن ذخیرہ، اور سمندری پودوں کی افزائش سے یہ ماحولیاتی توازن بحال کرتے ہیں۔ پاکستان، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہے، “ٹین بلین ٹری سونامی” جیسے منصوبوں کے ساتھ جانوروں کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تاہم، جنگلات کی کٹائی، غیر پائیدار زراعت، اور آگاہی کی کمی چیلنجز ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں