جدید جنگی ٹیکنالوجی کے دور میں، تیز رفتار میزائل جیسے ہائپرسونک اور کروز میزائل عالمی طاقتوں کے لیے اہم ہتھیار بن چکے ہیں۔ لیکن کیا ان طاقتور میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟ یعنی ان کے گائیڈنس سسٹمز کو ناکارہ بنا کر انہیں ہدف سے بھٹکایا جا سکتا ہے؟
حالیہ پاک-بھارت تنازع (مئی 2025) سائبر اور الیکٹرونک جنگ کی جدید تکنیکیں اس چیلنج کا جواب ہو سکتی ہیں.
پاکستانی فضائیہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے انڈیا کے بیشتر جدید ڈرونز اور براہموس میزائلوں کو ’سافٹ کِل‘ کے ذریعے ناکارہ بنایا اور انھیں اپنے ہدف یعنی پاکستانی افواج کی عسکری تنصیبات بشمول ایئربیسز تک پہنچنے سے روکا۔
پاکستان کے ڈپٹی چیف آف سٹاف آپریشنز ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے دعویٰ کیا کہ ہماری حدود میں 3000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والے براہموس میزائل مسلسل داغے جا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حدود میں 3000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والے براہموس میزائل مسلسل داغے جا رہے تھے۔ پاکستان کے اینٹی ڈرون اور میزائل سسٹمز نے دشمن کے یو اے ویز اور میزائلوں کو سپوفنگ، جیمنگ، سیٹلائٹ کمیونیکیشن کو جام کر تے ہوئے سائبر حملوں سے ناکارہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مقامی طور پر تیار کردہ سسٹمز نے انڈیا کے بھیجے گئے یو اے ویز اور میزائلوں کے جی پی ایس سسٹمز اور سیٹیلایٹ کمیونیکیشن (SatCom) میں خرابی پیدا کی جس کے نتیجے میں ’Soft kills induced GPS errors‘ (سوفٹ کل انڈیوسڈ جی پی ایس ایررز) ان کے یو اے ویز اور میزائل ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی راستہ بھٹک گئے.
مزید پڑھیں: پاکستان کے خلاف’ایس این آر سسٹم’ سے لیس بھارتی نیوی کا نیا ہتھیار
براہموس میزائل:
براہموس میزائل انڈین ’دفاعی تحقیق و ترقی کے ادارے‘ اور روس کی ’این پی او ۔ ماشینوسٹرائے اینیا‘ کی 1998 میں مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔
براہموس میزائل کی زیادہ سے زیادہ رفتار 2.8 ’میچ‘ (تقریباً 3 ہزار 450 کلومیٹر فی گھنٹہ یا2 ہزار 148 میل فی گھنٹہ) ہے۔ اسے میزائل شکن نظام سے روکنا مشکل ہے۔
اس میں یہ بھرپور صلاحیت بھی موجود ہے کہ مختلف قسم کے ’ریڈار‘ (جہازوں اور اڑتی اشیا کا سراغ لگانے کا نظام) سے بھی بچ نکلتا ہے۔
براہموس فضا میں 15 کلومیٹر کی بلندی اور سطح زمین سے کم ازکم 10 میٹر اوپر پرواز (کروز کرنے) کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میزائل میں 200 سے 300 کلوگرام (غیرجوہری) روایتی بارودی مواد لیجانے کی صلاحیت موجود ہے۔
تیز رفتار میزائل، جیسے بھارت کا براہموس (ماچ 3) اور ہائپرسونک میزائل (ماچ 5 سے زائد)، اپنی رفتار اور کم بلندی پر پرواز کی وجہ سے روایتی دفاعی نظاموں کے لیے خطرہ ہیں.
یہ میزائل ریڈار، جی پی ایس، اور انفراریڈ سیکرز پر انحصار کرتے ہیں، جو انہیں درست ہدف تک پہنچاتے ہیں۔ پاکستان کے شاہین-III (2,750 کلومیٹر) اور بابر کروز میزائل بھی اسی طرح کے گائیڈنس سسٹمز استعمال کرتے ہیں.
ہائپرسونک میزائل:
یہ آواز کی رفتار سے پانچ گنا یا اس سے زیادہ تیزی سے سفر کرتے ہیں، جیسے بھارت کا ہائپرسونک میزائل یا روس کا زیرکون (ماچ 27) . ان کی تیز رفتار اور کم پرواز کا وقت (کبھی کبھار سیکنڈز) دفاعی نظاموں کے لیے ردعمل کا وقت کم کر دیتا ہے.
کروز میزائل:
کم بلندی پر پرواز کرتے ہیں، جیسے پاکستان کا بابر (700 کلومیٹر) یا ایران کا پاوہ (1,650 کلومیٹر)، جو ریڈار سے بچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.
میزائلوں کو ’اندھا‘ کرنے کی تکنیکیں
میزائلوں کو ’اندھا‘ کرنے سے مراد ان کے گائیڈنس سسٹمز (ریڈار، جی پی ایس، انفراریڈ) کو خراب کرنا یا گمراہ کرنا ہے تاکہ وہ ہدف سے بھٹک جائیں۔ یہ سائبر اور الیکٹرونک جنگ کے ذریعے ممکن ہے.
الیکٹرونک کاؤنٹر میژرز (ECM):
جیمنگ:
ریڈار یا جی پی ایس سگنلز کو خلل ڈالنے کے لیے مضبوط الیکٹرانک سگنلز بھیجنا۔ پاکستانی فضائیہ نے مئی 2025 میں بھارت کے براہموس میزائلوں کو ’سافٹ کل‘ کے ذریعے ناکارہ بنایا، جیسے جیمنگ اور سپوفنگ کا استعمال کرتے ہوئے.
سپوفنگ:
جھوٹے سگنلز بھیج کر میزائل کو غلط ہدف کی طرف لے جانا۔ ڈاکٹر جیفری لیوس کے مطابق، براہموس جیسے میزائلوں کے ریڈار سیکر کو ’ٹرمینل فیز‘ میں کنفیوز کیا جا سکتا ہے.
لیزر ڈیزلرز:
انفراریڈ سیکرز کو خراب کرنے کے لیے لیزر شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں، جو خاص طور پر کروز میزائلوں کے خلاف موثر ہیں۔
سائبر حملے:
میزائل کے مواصلاتی نظام یا سیٹلائٹ نیویگیشن کو ہیک کرنا۔ مثال کے طور پر، چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی سٹریٹجک سپورٹ فورس سیٹلائٹس کو نشانہ بناتی ہے تاکہ دشمن کے مواصلات کو ’اندھا‘ کیا جا سکے.پاکستانی نیشنل سائبر کرائم اینڈ انویسٹی گیشن ایجنسی ایسی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے پر کام کر رہی ہے.
فائبر آپٹک ڈرونز:
یوکرین کی جنگ میں استعمال ہونے والے یہ ڈرونز الیکٹرونک جیمنگ سے محفوظ ہیں کیونکہ وہ کیبل کے ذریعے کنٹرول ہوتے ہیں، اور انہیں دشمن کے میزائلوں کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے.
ماہرین کے مطابق، تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کرنا ممکن ہے لیکن مشکل ہے. کروز میزائل، جیسے براہموس، کو جیمنگ اور لیزر ڈیزلرز سے ناکارہ کیا جا سکتا ہے، تاہم، ہائپرسونک میزائلوں کی رفتار اور چالاکی (ماچ 5 سے زائد) انہیں مشکل بناتی ہے.
ہائپرسونک میزائلوں کے خلاف ’ہارڈ کل‘ (فیزیکل طور پر تباہ کرنا) مشکل ہے کیونکہ ان کا پرواز کا وقت کم ہوتا ہے۔ ’سافٹ کل‘ (جیمنگ، سپوفنگ) زیادہ موثر ہے لیکن جدید میزائلوں میں انرشیل گائیڈنس سسٹمز ہوتے ہیں جو جیمنگ سے کم متاثر ہوتے ہیں.
مصنوعی ذہانت (AI) اور سائبر حملوں کا کردار بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، امریکی خلائی فورس کے ’گارڈیئنز‘ میزائلوں کو انفراریڈ ہیٹ سگنلز سے ٹریک کرتے ہیں، جو مستقبل میں ’اندھا‘ کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں.
تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کرنا سائبر اور الیکٹرونک جنگ کی جدید تکنیکوں سے ممکن ہے، جیسے جیمنگ، سپوفنگ، اور لیزر ڈیزلرز۔ پاکستان نے مئی 2025 میں بھارت کے براہموس میزائلوں کے خلاف یہ صلاحیت دکھائی، لیکن ہائپرسونک میزائلوں کے خلاف کامیابی محدود ہے۔
مستقبل میں، AI اور سائبر حملوں سے یہ جنگ مزید پیچیدہ ہو گی۔
I do agree with all the ideas you have introduced on your post They are very convincing and will definitely work Still the posts are very short for newbies May just you please prolong them a little from subsequent time Thank you for the post