چینی کی مہنگائی کا طوفان: شوگر ملوں کے 300 ارب کے منافع کی سنسنی خیز حقیقت
پاکستان میں چینی کی قیمتوں نے حالیہ مہینوں میں آسمان چھو لیا ہے۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں چینی کی فی کلو قیمت 185 سے 200 روپے تک جا پہنچی ہے، جبکہ ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو طے کی گئی تھی.
حکومت نے چینی کی برآمدات کی اجازت دی، جس سے ملکی مارکیٹ میں سپلائی کم ہوئی اور قیمتیں بے قابو ہو گئیں۔ تقریباً 7 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی کی برآمد سے 400 ملین ڈالر (112 ارب روپے) کی آمدنی ہوئی، لیکن اس کا فائدہ عوام کے بجائے شوگر ملوں کو پہنچا ۔
عوام پریشان ہیں کہ جب چینی کی پیداوار میں اضافہ ہوا تو قیمتیں کیوں نہ گریں؟
آڈیٹر جنرل کے مطابق،پی اے سی اجلاس میں ملک میں چینی کی برآمد کی تفصیلات جمع کرائی گئیں جس میں بتایا گیا کہ 67 شوگر ملوں نے چالیس کروڑ ڈالر یعنی 112 ارب روپے کی چینی برآمد کی، شوگر ملوں نے قیمتوں میں اضافے سے 300 ارب روپے کا منافع کمایا، جو ایک چونکا دینے والی حقیقت ہے۔ تاہم، پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعداد و شمار بے بنیاد ہیں۔ پھر بھی، ماضی کے شواہد بتاتے ہیں کہ شوگر مافیا نے ہمیشہ مارکیٹ کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ 2018 سے 2020 کے دوران، شوگر ملوں نے جعلی پیداواری لاگت کے ذریعے 53 ارب روپے کا اضافی منافع کمایا اور 18 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی تھی.
مزید پڑھیں: پاکستان میں شوگر ملوں کے مالکان کون ہیں
حکومت نے چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن آئی ایم ایف کی برآمدی سبسڈی پر پابندی اور ڈی ریگولیشن کے تقاضوں نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا.
ماضی میں، 4.12 ارب روپے کی ایکسپورٹ سبسڈی سے شوگر ملوں کو فائدہ پہنچا، لیکن قیمتوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب چینی کی پیداوار سرپلس ہے تو مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟
شوگر ملوں کے مالکان میں کئی سیاسی شخصیات شامل ہیں، جن میں مریم نواز، مونس الٰہی، حمزہ شہباز، اور جہانگیر ترین جیسے نام نمایاں ہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ان مالکان کے نام طلب کیے، لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ناکافی جوابات ملے.