خوبصورت اور محبت بھری اردو شاعری پیش کی جا رہی ہے. اردو شاعری کی خوبصورتی اس کی سادگی، گہرائی، اور لفظوں کے انتخاب میں ہے، جو محبت کے جذبے کو ایک عالمگیر زبان میں پیش کرتی ہے۔
تیرے بغیر یہ دل ادھورا سا لگتا ہے،
ہر سانس میں بس تیرا ہی بسیرا سا لگتا ہے۔
چل آ، میری جان، یہ لمحے ترس رہے ہیں،
تیرے بغیر یہ جہان بے رنگ سا لگتا ہے۔
یری ایک جھلک کو ترستا ہوں رات دن،
دل کہتا ہے تو آئے گی، بس کچھ پل ہیں۔
ہر دھوپ چھاؤں میں تیرا نام لکھتا ہوں،
میری محبت کا وعدہ، ہر پل تیرے لیے ہے۔
تیری آنکھوں میں ڈوبا ہوں، خواب سا دیکھتا ہوں،
دل سے دل تک جو پل بنا، وہ سچ سا لگتا ہوں۔
تیرا ہر لفظ میری روح میں اترتا ہے،
تو میری زندگی، تو ہی میرا جہاں ہے۔
رات گہری ہے، مگر تیرا خیال جاگتا ہے،
دل کی دھڑکن میں بس تیرا نام بھاگتا ہے۔
جدائی نے سکھایا ہے محبت کا سبق،
تو دور ہے، مگر دل میں بس تیرا ہی راج ہے۔
محبت تیری رگ رگ میں سمایا ہے،
دل کا ہر کونا تیرے نام سے آیا ہے۔
چاہے دنیا بدل جائے، چاہے رُتھ جائے جہاں،
میری وفا تیرے لیے ہمیشہ وہی رہے گی۔
تیرے بغیر یہ دل تنہائی میں ڈوب جاتا ہے،
ہر پل تیرے خیال کا سہارا لے آتا ہے۔
دعا ہے رب سے کہ تو ہمیشہ مسکرائے،
میری ہر سانس میں بس تیرا ہی نام آتا ہے۔
بس ایک پل تیرے ساتھ جینا چاہتا ہوں،
تیری مسکراہٹ کو دل سے دل تک پینا چاہتا ہوں۔
محبت تیری میری راتوں کا ستارہ ہے،
تو میری دنیا، تو میرا سارا جہاں ہے۔
تیرے بغیر یہ دل بےقرار رہتا ہے،
ہر لمحہ تیرا خیال ہی دل کو سہتا ہے۔
تیری باتوں سے شروع، تیری یادوں تک گیا،
یہ دل محبت کے رنگوں میں رنگین ہو گیا۔
ہر قدم پر تیرا ساتھ میری منزل ہے،
تو میری محبت، تو میری بقا ہے۔
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
مخلص شخص کا مقابلہ کوئی چیز نہیں کرسکتی🥹✨
وہ ہمارے دل کی طرح ایک ہی ہوتا ہے…!!
*یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں*
*خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے*
*سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے*
*جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے🫂
پھر تجھے ، اور مجھے اور کہیں جانا ھے
ھم سفر! ساتھ تو چل ، جتنی سڑک باقی ھے
*بدلا جو وقت، گہری رفاقت بدل گئی*
*سورج ڈھلا، تو سائے کی صورت بدل گئی*
*ایک عمر تک میں اس کی ضرورت بنا رہا*
*پھر یوں ہوا کہ اس کی ضرورت بدل گئی.
میں خود میں برائیاں ڈھونڈتی رہ گئی
جب اس نے کہا تم میرے قابل نہیں
مر جائے گی یک طرفہ محبت بھی کسی دن
کب تک کوئی *صحراؤں* کو سیراب کرے گا
کبھی راستے بدل گئے کبھی ارادے بدل گئے
ہم نہ بدلے مگر تیرے وعدے بدل گئے ….
محبت کے اندھیرے میں پتھر پگل گئے
غیروں سے کیا گلہ جب اپنے بدل گئے
کسی کی لاکھ باتیں یاد نہیں رہتیں
اور کسی کا ایک جملہ زندگی بھر نہیں بھولتا
زِندگی ،، ڈھیر تَقاضوں ،، کا بَھرم رَکھتی ہَے
مَیں گُزَارُوں ،، نہ گُزَارُوں ،، یہ گُزَر جائے گِی…!
ہر کھیل قسمت ھی نہیں کھیلتی کبھی کبھی🥹🤦♂️
اانسان بھی انسانوں کے ساتھ کھیل جاتے ھیں.
مزید پڑھیں: عباس تابش کی جادوئی شاعری
سُکُونِ قَلب تُم سے ہے، سُکُونِ جاں بهی تُم ہُو
تَعَجُّب ہے کہ سِینے میں جَہاں دِل تها، وَہاں تُم ہُو
یہ پُوچها ہے زَمانے نے تَیرا کَیاحِصَّہ ہے مُجھ میں؟
مَکِیں تُم ہُو، مَکاں تُم ہُو، زَمِین و آسماں تُم ہُو!!
اکیلی بیٹھ جاتی ہوں کبھی ٹوٹ جاؤں تو۔۔۔
میں لوگوں کے لہجوں سے شکایت نہیں کرتی
بہت مشکل ہوتا ہے اس شخص کو منانا
جو ناراض بھی نہ ہو اور بات بھی نہ کرے
زِندگی ،، ڈھیر تَقاضوں ،، کا بَھرم رَکھتی ہَے�
مَیں گُزَارُوں ،، نہ گُزَارُوں ،، یہ گُزَر جائے گِی…!�
ہم کو اک عمر نہ جینے کا سلیقہ آیا
ہم نے اک عمر تمناؤں کے دھوکے کھائے۔۔
نکاح میں آؤ گے تو عشق بھی کر لیں گے
یوں حرام محبت ہم سے نہیں ہوتی!…
ہائے! آخر میں وہی حادثہ پیش آیا ہمیں
پھر کہنا پڑا کہ یار،لکھے تھے مقدر ایسے..!
ہوتا ہوگا کھلی زلفوں کا ذکر غزلوں میں
باحیا عورتوں کا تذکرہ قرآن میں ہوا ہے
ہم ملیں گے تمہیں متروک سخن خانے میں
پھاڑ کر پھینکے ہوئے اقتباس کی مانِند
میں وہ نہیں ہوں جو کسی کو اُجاڑ کر ہنس دوں
خسارے لے کر میں خوشیاں بانٹ آٶں گی
متاعِ زیست بنے تیرے نقشِ پا کی قسم
وہ اشک تو نے جنہیں مسکرا کے دیکھ لیا
ترے سوا تری اس کائنات میں کیا ہے
جلا کے دیکھ لیا دل بجھا کے دیکھ لیا
مانا کہ آپ ہم سے، نہیں بےخبر مگر…!!!
_تَکنے کے سَاتھ سَاتھ، پُکارا بھی کیجیئے…!!!
یہ مِرا عِجز نہیں، وقت کی سفّاکی ہے
دَب گئے ہیں مِرے اندر مِرے جوہر کتنے
ہمیں خبر ہے، ہوا کا مزاج رکھتے ہو ،
مگر یہ کیا کہ ذرا دیر کو رکے بھی نہیں
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب
دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن
یارو مجھے مصلوب کرو تم، کہ مِرے بعد
شاید کہ تُمھارا، قد و قامت نکل آئے
ایک مدت سے پکارا نہیں تم نے مجھ کو۔۔۔
ایسا لگتا ہے میرا نام نہیں ہے کوئی!
بس اِسی بات پہ اکتائی ہوئی پھرتی ہوں۔۔۔
تم ہو مصروف مجھے کام نہیں ہے کوئی!
عشق کی حقیقت کو بس وہی تو سمجھے گا۔
عشق کے سمندر میں،ڈوب کر جو نکلا ہے
تیــرے خیال کی لو تن سے جب اترتی ہے
بڑی خاموشی سے آنگن میں شَب اُترتی ہے
تمہارا ســـاتھ تسلسـل سے چاہیے مجھ کو
تھکن زمانوں کی لمحوں میں کب اترتی ہے
دیکھ عاصم مُجھے اب گہرا سکون چاہیئے
تُو سمجھ تو رہا ہے ناں مِری بات کا مطلب
اِک تُو ہی تو ہے مرا واقفِِ حال و ھَم نشیں
ھے تُجھی سے وابستہ مری حیات کا مطلب
دشتِ طلب میں کھو گئے، رستوں میں رہ گئے
دریا چلے تھے دل سے جو آنکھوں میں رہ گئے
اک وقت تھا جو کھو گیا ماضی میں اب کہیں
کچھ لوگ تھے جو اب مری باتوں میں رہ گئے
چہرے ہیں کچھ جو سوچ سے جاتے نہیں کبھی
کچھ عکس قید آئینہ خانوں میں رہ گئے
یادوں سے کھیلتی رہی تنہائی رات بھر
خوشبو کے انتظار میں شب بھیگتی رہی
وہ لفظ لفظ مجھ پہ اترتا رہا محسن
سوچوں پہ اس کے نام کی تختی لگی رہی
کوئی چاہیے کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو
اگر وہ مخلص نہیں تو فقط کچرا ہے..
منافقت میں درجے نہیں ہوا کرتے
سارے منافق درجے اول کے ہی ہوتے ہیں.!!
ہم اور ترے حُسنِ تغافل سے بگڑتے
جب تو نے کہا مان گئے؟ مان گئے ہم
اس نے دو چار کر دیا مجھ کو
ذہنی بیمار کر دیا مجھ کو___!!
کیوں نہیں دسترس میں میرے تو؟
کیوں طلبگار کر دیا مجھ کو ____!!
وہ بھی دیتے ہیں محبت تبرک کی طرح
پھر ھم نے بھی حاضری کم کر دی
ایک مدت سے پکارا نہیں تم نے مجھ کو۔۔۔
ایسا لگتا ہے مرا نام نہیں ہے کوئی!
بس اِسی بات پہ اکتایا ہوا پھرتا ہوں۔۔۔
تم ہو مصروف مجھے کام نہیں ہے کوئی!
ہم لامکاں کی سرحدوں کے باسی ہیں ازل سے
اپنا کوئی مسکن کوئی دربار نہیں ہے
ہم نگر نگر بھٹکنے کے مسافر
خانہ بدوش تیرے دلدار نہیں ہیں
رکھ لیا دل کی جگہ ہم نے اٹھا کر پتھر
اب کوئی بچھڑے تو دشواری نہیں ہوتی
اک سکوں ہے جو بہت دور پڑا رہتا ہے
اک وحشت ہے جو اب طاری نہیں ہوتی..
ہم وہ درویش جنہیں درد سہولت سے ملے
ہم وہ بیمار جنہیں سب نے مصیبت سمجھا
ہم نے تعبیر میں کر لی بھلے زخمی آنکھیں
پھر بھی ہر خواب کو ہر بار حقیقت سمجھا
ایک یہ خوف!کوئی زخم نہ دیکھے دل کے
ایک حسرت ! کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا ۔۔۔
در ہے نہ آستاں نہ حرم ہے نہ بُتکدہ
یارب مچل پڑی ہے ہماری جبیں کہاں
پوچھ مت , دیکھ ! مرا عشق نے جو حال کیا
دل کو مجذوب کیا ذہن کو پامال کیا
اس نے نایاب کوئی چیز طلب کی جب کی
میں نے دل باندھ کے اک شیشے میں ارسال کیا
ایک ہی جست بھری سینوں سےدل کھینچ لیے
عشق نے آنکھ اٹھائی ہے کہ قتال کیا
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا
میری آوارگی میں کچھ دخل تیرا بھی هے
تمہاری یاد آتی هے تو گھر اچھا نہیں لگتا
ناگہاں اور کسی بات پہ دل ایسا دُکھا
میں بہت رویا، مجھے آپ بہت یاد آئے..
بھیڑ لگی تھی ، جُھوٹوں کی
دُور کھڑا تھا ، تنہا سَچ
ھم ھیں اپنے دُشمن آپ
کون سُنے یہ کڑوا سَچ
اَمجد ٫ ھے یہ فخر ھمیں
جب بھی لکِھا ، لِکھا سَچ
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ۔
آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا۔
وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا
اب کسے ڈھونڈھتا ہے ارے بے خبر
اے دشتِ جنوں!! توڑ نہ دروازہءِ زنداں
میں پوچھ تو لوں پاؤں کی زنجیر سے پہلے!!
جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر
اے دل کم نظر اے مرے چارہ گر