مکرون نے کئی مرتبہ کہا، “فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا فرانس کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں” اور اس عمل کا ٹائمنگ مناسب وقت پر ہونا چاہیے. فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے جمعرات کو اعلان کیا کہ فرانس فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا، جبکہ غزہ میں لوگوں کی بھوک سے متعلق عالمی غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔
فرانسیسی حکام گذشتہ کچھ عرصہ سے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے قدم اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور اس کا سرکاری اعلان ستمبرمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیا جائے گا.
فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا اس معاملے کے حتمی انجام کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
فرانس G7 ممالک میں پہلا مغربی طاقتور ملک ہے جو ایسا کرنے جا رہا ہے.
فرانس کے اس فیصلے سے اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی اور غزہ میں انسانی بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے لیے ایک دھچکا ہے۔
فرانسیسی صدر کے اس اعلان کے بعد چند گھنٹوں کے اندر، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ امریکہ اس اقدام کی شدید مذمت کرتا ہے.
انہوں نے کہا، یہ غیر ذمہ دارانہ فیصلہ صرف حماس کے پروپیگنڈے کی حمایت کرتا ہے، اور امن کے امکانات کو پیچھے دھکیلتا ہے۔ یہ 7 اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر طمانچہ ہے۔
میکخواں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ آج سب سے ضروری بات یہ ہے کہ غزہ میں جنگ بند ہو اور شہری آبادی کو بچایا جائے۔
فرانسیسی صدر نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کی حمایت کی تھی اور وہ اکثر یہود دشمنی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، لیکن حالیہ مہینوں میں، خاص طور پر غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے وہ تیزی سے مایوس ہوئے ہیں۔
میکخواں نے کہا کہ، “مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے اپنی تاریخی وابستگی کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔” انہوں نے مزید کہا، “امن ممکن ہے۔
فرانس فلسطین کو تسلیم کرنے والا یورپ کا سب سے بڑا اور طاقتور ملک ہے۔دنیا بھر کے 140 سے زائد ممالک پہلے ہی فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔جن میں یورپ کے ایک درجن سے زیادہ ممالک شامل ہیں. گذشتہ سال آئرلینڈ، سپین، ناروے اور سلووینیا نے ان ممالک کی فہرست میں شمولیت اختیار کی تھی، تاہم اس کا اثر بہت کم تھا۔
فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی یہودی آبادی اور مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات اکثر فرانس میں مظاہروں یا دیگر کشیدگی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
فرانس کا وزیر خارجہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل کے بارے میں ایک کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کر رہا ہے۔ پچھلے مہینے، میکخواں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے “عزم” کا اظہار کیا تھا، اور وہ دو ریاستی حل کی طرف وسیع تر تحریک کی حمایت کرتے ہیں، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے دفاع کے حق کے ساتھ متوازی ہو۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے فوراً بعد مشرقی یروشلم کو ضم کر لیا تھا اور اسے اپنے دارالحکومت کا حصہ سمجھتا ہے۔ مغربی کنارے میں، اس نے متعدد بستیاں قائم کی ہیں، جن میں سے کچھ وسیع مضافاتی علاقوں کی طرح ہیں، جہاں اب 500,000 سے زائد یہودی آباد کار رہتے ہیں جن کے پاس اسرائیلی شہریت ہے۔ اس علاقے کے 30 لاکھ فلسطینی اسرائیلی فوجی حکمرانی کے تحت رہتے ہیں، جہاں فلسطینی اتھارٹی آبادی کے مراکز میں محدود خودمختاری استعمال کرتی ہے۔
حال ہی میں اسرائیل کے خلاف عالمی رائے میں تیزی آئی ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں، فرانس اور دو درجن سے زائد زیادہ تر یورپی ممالک نے غزہ میں امدادی ترسیل پر اسرائیل کی پابندیوں اور خوراک تک رسائی کی کوشش میں سینکڑوں فلسطینیوں کے قتل کی مذمت کی۔