عباس تابش (پیدائش: 15 جون 1961ء، میلسی، ضلع وہاڑی) جدید اردو غزل کے ایک ممتاز شاعر ہیں، جن کی شاعری اپنی سادگی، جذباتی گہرائی، اور دلفریب انداز کی وجہ سے “جادوئی” کہلاتی ہے۔ ان کا کلام دل کو چھوتا ہے اور محبت، جدائی، سماجی مسائل، اور انسانی جذبات کے گرد گھومتا ہے۔ ان کی شاعری میں رومانیت اور فلسفیانہ سوچ کا امتزاج ملتا ہے، جو قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں الفاظ جذبات کی تصویر بن جاتے ہیں۔ ان کے اشعار کی جادوئی کشش ان کی سادہ لیکن گہری زبان، علامتوں کے استعمال، اور روزمرہ زندگی سے جڑے موضوعات میں چھپی ہے۔
بات کر اے خوبصورت شخص کوئی بات کر
اور ثابت کر تجھے کوئی پریشانی نہیں
کہنا کہ زمانے تو گزر جائیں گے لیکن
مجھ سے نہیں گزرے گا وہ لمحہ اُسے کہنا
تب ہی تو دھیان میں پکڑی ہے باپ کی انگلی
میں خوش نہیں تھا ستارے کو رہنما کر کے
خوشی سے تم بچھڑ جاؤ مگر یہ دھیان میں رکھنا
کہ ہم ترکِ تعلق کو وفاداری سمجھتے ہیں
میرے ہاتھ آتے ہیں تابش دوسرے موسم کے پھول
ایک موسم میں تو ٹہنی تک پہنچ پاتا ہوں میں
پہنچ چکے ہیں محبت میں اُس جگہ ہم لوگ
جہاں یقیں نہیں آتا یقیں دہانی سے
حمدیہ
نہ صدا کا سمت کشا ہوں میں
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کادُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہون مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرت شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ رکھ
رہِ خواندگاں پہ مری کجی مری گمرہی کو بھی ڈال دے
نہ قلم پکڑنے کا ڈھنگ ہے نہ ورق ہے میری بساط میں
مرا منہ چڑاتی ہے لوحِ گل
ابھی وہ ورق نہیں سامنے ترا پاک نام کہاں لکھوں
کہ سپیدی صفحہ صاف کی مری آنکھوں میں ہے بھری ہوئی
جہاں کوئی سطر ہے خواب کی نہ خرام موجہِ اشک ہے
مجھے خوابِ خوش سے نواز دے کہ یہ چشمِ وا بھی عذاب ہے
میں تہی نوا
میں تہی ثنا
میں لکھوں گا کیا؟
مگر اے خدا مری پوٹلی میں جو تیرے دھیان کی جوت ہے
یہی رت جگا مرا مال ہے
یہی مال مرا کمال ہے
کھڑی ہیں رہ میں دُرودوں کی ڈالیاں لے کر
یہ مدحتیں ہیں کہ ہیں بچیاں مدینے کی
نہ جانے کون مرا کھو گیا ہے مٹی میں
زمیں کریدتی رہتی ہیں انگلیاں میری
سن رہا ہوں ابھی تک میں اپنی ہی آواز کی بازگشت
یعنی اس دشت میں زور سے بولنا بھی اکارت گیا
ثبت کر اور کوئی مہر مرے ہونٹوں پر
قفلِ ابجد سے نہیں بند ہوا باب مرا
جس قدر آئی فراخی مرے دل میں تابش
اتنا ہی تنگ ہوا حلقہ احباب مرا
پہلے تو چوپال میں اپنا جسم چٹختا رہا تھا
چل نکل جب بات سفر کی پھیل گئی اعصاب میں چپ
اب تو ہم یوں رہتے ہیں اس ہجر بھرے ویرانے میں
جیسے آنکھ میں آنسو گم ہو جیسے حرف کتاب میں چپ
پہنچے تو سبھی بارگہِ حسن میں لیکن
جلدی کوئی آیا کوئی تاخیر سے پہنچا
دستک نے ایسا حشر اٹھایا کہ دیر تک
لرزاں رہا ہے جسم بھی زنجیرِ درکے ساتھ
فقط مال و زر ِدیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
راستے گم ہو رہے ہیں دھند کی پہنائی میں
سردیوں کی شام ہے پھر اس کا چک آنے کو ہے
شب کی شب کوئی نہ شرمندہ رخصت ٹھہرے
جانے والوں کے لیے شمعیں بجھا دی جائیں
مرے حروفِ تہجی کی کیا مجال کہ وہ
تجھے شمار میں لائیں ترا حساب کریں
یہ آج شام بھی گزری کسی خیال کے ساتھ
نہ اس سے ملنے گیا میں نہ اپنے گھر بیٹھا
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
میں جب بھی دھوپ کے صحرا میں جا نکلتا ہوں
وہ ہاتھ مجھ پہ دعا کا شجر بناتے ہیں
کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ
مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابش
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ
قیدی بھی ہیں اس شان کے آزاد تمہارے
زنجیر کبھی زلف سے بھاری نہیں رکھتے
مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کارِ محبت
آغاز تو کر لیتے ہیں جاری نہیں رکھتے
کوئی روندے تو اٹھاتے ہیں نگاہیں اپنی
ورنہ مٹی کی طرح راہ سے کم اٹھتے ہیں
ادھوری نظم
اندھیری شام کے ساتھی
ادھوری نظم سے زور آزما ہیں
برسرِ کاغذ بچھڑنے کو
سنو…….تم سے دلِ محزوں کی باتیں کہنے والوں کا
یہی انجام ہوتا ہے
کہیں سطرِ شکستہ کی طرح ہیں چار شانے چت
کہیں حرفِ تمنا کی طرح دل میں ترازو ہیں
سنو……ان نیل چشموں سخت جانوں بے زبانوں پر
جو گزرے گی سو گزرے گی
مگر میں اک ادھوری نظم کے ہیجان میں کھویا
تمہیں آواز دیتا ہوں
کہ تنہا آدمی تخلیق سے عاری ہوا کرتا ہے
جانِ من!
سنو……میرے قریب آؤ
کہ مجھ کو آج رات اک ادھوری نظم پوری کر کے سونا ہے!
ویسے تو اس بت کے گھر کا فاصلہ اتنا نہیں
دو قدم چلیے تو مرگِ ناگہاں ہے سامنے
کس کر باندھی گئی رگوں میں، دل کی گرہ تو ڈھیلی ہے
اُس کو دیکھ کے جی بھر آنا، کتنی بڑی تبدیلی ہے
یوں بھی عذابِ ہجر سے میں نے گزر کِیا
شب کی بجائے میر کا مصرع بسر کِیا
مَیں بے وفا ہوں مجھ کو گریبان سے پکڑ
اور مجھ سے پوچھ۔۔مَیں نے تِرا غم کِدھر کِیا
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اے دوست دعا اور مسافت کو بہم رکھ
یہ میری ہتھیلی ہے یہاں پہلا قدم رکھ
تو خدا ہونے کی کوشش تو کرےگا لیکن
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دینگے
کوئی ٹکرا کے سبک سر بھی تو ہو سکتا ہے
میری تعمیر میں پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ جو ہے پھول ہتھیلی پہ، اِسے پھول نہ جان
میرا دل جسم سے باہر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ محبت تو بہت بعد کا قصّہ ہے میاں
میں نے اس ہاتھ کو تھاما تھا پریشانی میں
یہ تیرے بعد کھلا ہے کہ جدائی کیا ہے
مجھ سے اب کوئی اکیلا نہیں دیکھا جاتا
میں اُسے دیکھ کے لوٹا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
شہر کا شہر مجھے دیکھنے آیا ہوا ہے
غیر مانوس سی خوشبو سے لگا ہے مجھکو
تو نے یہ ہاتھ کہیں اور ملایا ہوا ہے
غیر مانوس سی خوشبو سے لگا ہے مجھکو
تو نے یہ ہاتھ کہیں اور ملایا ہوا ہے
ضروریاتِ جہاں ہم سے پوچھنے والے
تجھے یہ کیسے بتائیں کہ تو ضروری ہے
دم سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے
کوئی تو ہو کہ تری جس سے گفتگو کی جائے
کشیدہ کارِ ازل ! تجھ کو اعتراض تو نئیں
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کی جائے
کیسے وہ کوہسار کے دکھ کو سمجھ سکے
چشمے پہ جس کو شائبہءِ چشمِ تر نہ ہو
تجھ سے نہیں ملا تھا مگر چاہتا تھا میں
تو ہمسفر ہو اور کہیں کا سفر نہ ہو
خوں بہا تو خیر کیا ملتا تمھارے شہر میں
قاتلوں کے نام پر رکھے گئے سڑکوں کے نام
نہ خواب ہی سے جگایا نہ انتظار کیا
ہم اس دفعہ بھی چلے آئے چوم کر اسکو
یہ دیکھ مرے نقش کفِ پا مرے آگے
آگے بھی کہاں جاتا ہے رستہ مرے آگے
اے قامت_دلدار گزشتہ کی معافی
پہلے کوئی معیار نہیں تھا مرے آگے
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک مَحبت۔۔۔اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
اچھے لگتے ہیں مجھے شور مچاتے بچے
انکو خوش دیکھ کہ لگتا ہے کہ دنیا خوش ہے
یہ زندگی تو مجھے تیرے پاس لے آئی
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا
دھونے سے بھی جاتی نہیں اس ہاتھ کی خوشبو
ہم ہاتھ چھڑا کر بھی چھڑانے میں لگے ہیں
کَس کر باندھی گئی رگوں میں دل کی گرہ تو ڈھیلی ہے
اُس کو دیکھ کے جی بھر آنا، کتنی بڑی تبدیلی ہے
زندہ ہوں تو مجھے بتائیں نیلے ہونٹوں والے لوگ
میرا کیسا رنگ کرے گی بات جو میں نے پی لی ہے
تجھے تو چاہئے ہے اور ایسا چاہئے ہے
جو تجھ سے عشق کرے اور مبتلا نہ لگے
تمھارے تک میں بہت دل دکھا کہ پہنچا ہوں
دعا کرو کہ مجھے کوئی بد دعا نہ لگے
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
پھر اس کے بعد بازارِ دل نہیں لگنا
خرید لیجیے صاحب! غلام آخری ہے
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
وہ آنکھ کیسے ہلاکت میں ڈال سکتی ہے ؟
یہی میں سوچ رہا تھا کہ تیر چھید گیا …
تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے
تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا
اسے نہ ملنے سے خوش فہمیاں تو رہتی ہیں
میں کیا کروں گا جو انکار کر دیا اس نے
انہیں بتانا کہ عباس نام ہے میرا
مزید پوچھیں تو کہنا وہی گدائے حسین
ضروریات جہاں ہم سے پوچھنے والے
تجھے یہ کیسے بتائیں کہ تو ضروری ہے
اپنی مٹی کا گنہگار نہیں ہو سکتا
تلخ ہو سکتا ہوں، غدار نہیں ہو سکتا
جس سے پوچھیں تیرے بارے میں یہی کہتا ہے
خوبصورت ہے وفادار نہیں ہوسکتا
یونہی تجھ سے معذرت کرنے کو جی چاہے مرا
کوئی ایسی بات جو تجھ کو پسند آئی نہ ہو
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
اک محبت تو کئی بار بھی ہو سکتی ہے
ایک ہی شخص کئی بار نہیں ہو سکتا
اچھا لگتا ہے تمہیں میرا پریشاں ہونا
کیا یہی ہوتاہے نزدیکِ رگ جاں ہونا
ہم سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
میں اپنے بعد بہت یاد آیا کرتا ہوں
تم اپنے پاس نہ رکھنا کوئی نشانی میری
وہ جس کے خوف سے چھوڑا تھا میں نے بستی کو
وہ سانپ پھر میرے سامان سے نکل آیا ۔ ۔ ۔ ۔ !
جس سے آ تی ہو کسی جبہ ء توقیر پہ خاک
ایسی جاگیر پہ اور صاحب جاگیر پہ خاک
وہ نہ چاہیں تو کہاں نعت لکھی جاتی ہے
مدحِ سرکارؐ کی منزل ہے ہنر سے آگے
جن کوہوتاہے بہت دل کوبھروسہ تابش
وقت پڑنے پہ وہی لوگ دغادیتے ہیں
یہ محبت تو بہت بعد کا قصہ ہے میاں
میں نے اس ہاتھ کو پکڑا تھا پریشانی میں
عزت میں بدل دی گئی رسوائی ہماری ۔۔
دنیا کو سمجھ پھر بھی نہیں ائی ہماری۔
ایک تم ہی نہ چلے ساتھ ہمارے ورنہ
وہ بھی چل پڑتا اگر پیڑ کی منت کرتے..
دیکھا نہ جائے دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر
دیکھ کیسے دُھل گئے ہیں گریہ و زاری کے بعد
آسماں بارش کے بعد اور میں عزاداری کے بعد
دعا لپیٹ کے رکھ دیں کلام چھوڑ دیں ہم
تو کیا یہ خوشطلبی کا مقام چھوڑ دیں ہم
اتنا مایوس نہ ہو گھر کو سجانے والے
آ ہی جاتے ہیں کبھی خواب میں آنے والے
جس کو آنا ہے وہ خود ہی آئے گا ورنہ
ہم نہیں رہ چلتوں کو گھیر کر لانے والے
وہ بھی ڈھلتی چھاؤں کی طرح ہے تابش
اور دن میرے بھی نہیں ہیں عمر بتانے والے
ہزار عشق کرو لیکن اتنا دھیان رہے
کہ تم کو پہلی محبت کی بد دعا نہ لگے
اے عمر رواں اب تیری رفتار کا ڈر کیا
میں خود کو کیا اس کی جوانی کے حوالے۔
میں سوچ ہی نہیں سکتا کسی کے بارےمیں
مری شکست کا باعث مجھے بتانا مت
گالیاں دیں نہ کــسی شخص سے منہ مــاری کی
جب بھی دکھ پہنچا مجھے میں نے غزل جاری کی
یہ جو ہم تجھے جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔۔۔
اس طرح تو چلی جائے گی بینائی ہماری
سادہ بہت مگر کئی پرتیں لیے ہوئے
اس کا بدن ہے میر کے اشعار کی طرح
کیا تماشہ ہے کہ سب مجھ کو برا کہتے ہیں
اور سب چاہتے ہیں میری طرح کا ہونا
انہیں بتانا کہ عباس نام ہے میرا
مزید پوچھیں تو کہنا وہی غلام ،حسین
اصطبل میں ترے اجداد ہوا کرتے تھے
تری جاگیر سے بو آتی ہے غداری کی
اے مورخ ترا جنگل نہ کٹے گا ہم سے
تو نے تاریخ میں شجرے کی شجر کاری کی
عزت میں بدل دی گئ رسوائی ہماری
دنیا کو سمجھ پھر بھی نہیں آئی ہماری
دن نکلنے پر بھی میں بجھنے نہیں دیتا چراغ !!
روشنی کرنے میں سورج کی مدد کرتا ہوں میں
یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کر سکوں
آنکھیں نہیں رہیں کہ تماشا نہیں رہا
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے
بچوں کو تاک جھانک سے ہم منع کیوں کریں
اتنے برے تو اپنی جوانی میں ہم بھی تھے
چراغ و عنبر و بادا کے اہتمام کا ہے
جو ملنا ہو تو میرے پاس وقت شام کا ہے
غلط سمجھ لیا اس نے تو کیا کروں گا میں
کہ میرا اس سے تعلق تو احترام کا ہے
جو تو نہیں ہے تو اُس کو پکارتے ہیں ہم
ہمارے شہر میں اک شخص تیرے نام کا ہے
ستم تو یہ ہے کہ پتلی بٹھا کے مسند پر
کہا گیا کہ یہی فیصلہ عوام کا ہے
یہ جو دنیا ہے ہمارے درمیاں آئی ہوئی
اس کو بھی ہوتا تو ہو گا درمیاں ہونے کا دکھ
میں جانتا ہوں اس کے سبھی بھید سبھاؤ
دنیا نے کبھی رقص کیا تھا مرے آگے
خوبانِ شہر میں ترا چرچا نہیں رہا
جیسا تُو پہلے ہوتا تھا ویسا نہیں رہا
تم تو بچھڑ کے اور بھی نزدیک آگئے
میرے لیے تو صدمہ بھی صدمہ نہیں رہا
اللہ کرے کہ لیلیٰ کو اس کی خبر نہ ہو
میں نے سنا ہے قیس اکیلا نہیں رہا
ہم پس کوشش اظہار ملے ہیں تجھ سے
ملنا یہ ہے تو کئی بار ملے ہیں تجھ سے
کھینچ لاتی ہے ہمیں تیری محبت ورنہ
آخری بار کئی بار ملے ہیں تجھ سے