امجد اسلام امجد

امجد اسلام امجد کی محبت کے رنگوں میں ڈوبی شاعری

اردو شاعر، ڈراما نگار، نقاد ، (پیدائش: 4 اگست 1944ء، وفات: 10 فروری 2023ء)۔ 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے (اردو) کیا۔ 1968ء تا 1975ء ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں استاد رہے۔ اگست 1975ء میں پنجاب آرٹ کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ 1975ء میں ٹی وی ڈراما (خواب جاگتے ہیں ) پر گریجویٹ ایوارڈ ملا۔
امجد اسلام امجد پاکستان کے نامور اردو شاعر، ڈراما نگار، نثر نگار، کالم نگار اور گیت نگار تھے۔ انھوں نے اپنے 50 سالہ کیریئر میں 70 سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور اپنی شاعری، ڈراموں اور ادبی خدمات کے لیے متعدد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں تمغہ حسن کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز شامل ہیں۔

یہ جو لمحوں کی کتابیں ہیں، انہیں پڑھا کرو
دل کے آیئنے میں چہرے ہیں، انہیں دیکھا کرو

ایک خواب جو دیکھا تھا کبھی
اس کی تعبیر کہاں کھو گئی

دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے

اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو
اے دشتِ احتیاط !کبھی ناچنے تو دے

سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے

اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے

شاید کسی لکیر میں لکھا ہو میرا نام
اے دوست اپنا ہاتھ مجھے دیکھنے تو دے

یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں
یہ گھومتی زمین کہیں ٹھیرنے تو دے

کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں
امجدوہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن

رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب
دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن

پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن

خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن

گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن

میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے

ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے

یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے

وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے

ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے

شہرِ نبی ﷺکے سامنے آہستہ بولیے
دھیرے سے بات کیجیے آہستہ بولیے

اُن کی گلی میں دیکھ کر رکھیے ذرا قدم
خود کو بہت سنبھالیے آہستہ بولیے

ان سے کبھی نہ کیجیے اپنی صدا بلند
پیشِ نبی ﷺجو آیئے آہستہ بولیے

شہرِ نبی ﷺہے شہرِ ادب کان دھر کے دیکھ
کہتے ہیں اس کے راستے آہستہ بولیے

ہر اک سے کیجیے گا یہاں مسکرا کے بات
جس سے بھی بات کیجیے آہستہ بولیے

آداب یہ ہی بزمِ شہِ دو جہاں کے ہیں
سر کو جھکا کے آئیے آہستہ بولیے

امجدؔ وہ جان لیتے ہیں سائل کے دل کی بات
پھر بھی جو دل مچل اُٹھے آہستہ بولیے

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

کُچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھریوں ہُوا کہ خُود مِرا چہرا بدل گیا

جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا

قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا

کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا!

اِک سر خوشی کی موج نے کیسا کیا کمال!
وہ بے نیاز، سارے کا سارا بدل گیا

اٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا تو سارا تماشا بدل گیا

حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا

کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا، مکان کو نقشہ بدل گیا

شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آکے جو رستہ بدل گیا

قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
تعبیرکھو گئی، کبھی سَپنا بدل گیا

منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدحر سے بھی دیکھا بدل گیا

اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئی!
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا

آنکھوں میں جتنے اشک تھے جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا اور مری دُنیا بدل گیا

اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھو نڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کو ن شہر کا نقشہ بدل گیا

محبت ایسا نغمہ ہے
ذرا بھی جھول ہے لَے میں
تو سُر قائم نہیں ہوتا

محبت ایسا شعلہ ہے
ہوا جیسی بھی چلتی ہو
کبھی مدھم نہیں ہوتا

محبت ایسا رشتہ ہے
کہ جس میں بندھنے والوں کے
دلوں میں غم نہیں ہوتا

محبت ایسا پودا ہے
جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا

محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا

بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا

سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا

بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا

چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت
زیر لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا

دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا

بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا

نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا

اس عدوئے جاں کو امجدؔ میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا اچھا لگا

بدن سے اُٹھتی تھی اس کے خوش بو، صبا کے لہجے میں بولتا تھا
یہ میری آنکھیں تھیں اس کا بستر وہ اس میں سوتا تھا جاگتا تھا

حیا سے پلکیں جھکی ہوئی تھیں، ہوا کی سانسیں رُکی ہوئی تھیں
وہ میرے سینے میں سر چھپائے نہ جانے کیا بات سوچتا تھا

کوئی تھا چشمِ کرم کا طالب کسی پہ شوقِ وصال، غالب
سوال پھیلے تھے چار جانب بس ایک میں تھا جو چپ کھڑا تھا

عجیب صحبت، عجیب رُت تھی، خموش بیٹھے ہوئے تھے دونوں
میں اس کی آواز سن رہا تھا وہ میری آواز سن رہا تھا

بہار آئی تو تتلیوں کے پروں میں رنگوں کے خواب جاگے
اور ایک بھنورا کلی کلی کے لبوں کو رہ رہ کے چومتا تھا

وہ اور ہوں گے کہ جن کو امجد نئے مناظر کی چاہ ہوگی
میں اس کے چہرے کو دیکھتا ہوں اس کے چہرے کو دیکھتا تھا​

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں