کمپنی ایسٹ انڈیا

دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کا عروج و زوال

جب ہم دنیا کی بڑی کمپنیوں کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں ایپل، گوگل یا مائیکروسافٹ جیسے نام آتے ہیں، لیکن اگر تاریخ میں جھانکا جائے تو ایک ایسی کمپنی بھی تھی جس نے تجارتی طاقت کے ذریعے پورے برصغیر پر قبضہ جما لیا — اور وہ تھی برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی
یہ صرف ایک کمپنی نہیں، بلکہ تاریخ کی وہ منفرد طاقت تھی جو تجارت سے حکومت تک پہنچی، اور اپنے عروج پر کئی ممالک کی قسمت کا فیصلہ کرتی تھی۔
31 دسمبر 1600 کو لندن میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے مشرق کے ساتھ تجارت کے مکمل اختیارکے ساتھ اپنے قیام کے کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان آئی۔
شروع میں مغل حکمرانوں نے انگریز تاجروں کو خوش آمدید کہا۔کمپنی 1668 تک ہندوستان کے مختلف ساحلی علاقوں میں قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔
مگر صدی کے آخر تک مغلوں سے کمپنی کے تعلقات بگڑ گئے۔

جب مزید تجارتی مراعات مانگنے پر انکار ہوا تو کمپنی نے بندرگاہیں بند کر دیں اور مغلوں سے جنگ چھیڑ دی، جسے اینگلو-مغل جنگ (1686–1690) کہا جاتا ہے۔
اورنگزیب عالمگیر نے انگریزوں کو شکست دی۔ انھیں لگا کہ یہ تاجر کوئی بڑا خطرہ نہیں اس لیے صرف معافی اور جرمانے پر اکتفا کیا۔

لیکن عالمگیر کی وفات کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا اور یہی وقت تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے طاقت اور پیسہ سمیٹا۔ کمپنی نے اپنی ابتدائی فتوحات کے بعد فرانس اور ہالینڈ کو بھی برصغیر سے نکال باہر کیا۔

رابرٹ کلائیو ایک ’بہادر، ہوشیار اور بے رحم فوجی کمانڈر‘ جنھوں نے’برطانیہ کے لیے ہندوستان میں ایک سلطنت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا.رابرٹ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے درباریوں جگت سیٹھ، رائے دُرلبھ، یار لطف خان اور امیر چند حتیٰ کہ فوج کے سربراہ میر جعفر کو بھی خریدا اور 23 جون 1757 کی جنگ پلاسی آسانی سے جیت لی۔
پلاسی کی جنگ (1757) میں نواب سراج الدولہ کو شکست دی، اور بنگال پر قبضہ کر لیا۔
یہ وہ موڑ تھا جہاں کمپنی صرف تاجروں کی تنظیم نہیں، بلکہ ایک سیاسی طاقت بن گئی۔
کمپنی کے پاس اپنی فوج، اپنا سکہ، اپنا بحری بیڑا اور قوانین تھے
دنیا کی پہلی کارپوریٹ ملٹری طاقت
عروج کے وقت کمپنی کے ملازمین کی تعداد: تقریباً 2 لاکھ
کلائیو نے دو مرتبہ بنگال کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں (60-1758 اور (67-1764).جب وہ برطانیہ واپس گئے تو پارلیمان میں ایک بدعنوان ’نواب‘ کے طور پر ان کی شدید مذمت کی گئی۔
بیماری اور ڈپریشن کے امتزاج نے انھیں 24 نومبر 1774 کو خودکشی پر مجبور کر دیا۔ جب وہ مرے تو ان کی دولت تقریباً پانچ لاکھ پاؤنڈ تھی جو آج کے حساب سے تقریباً 33 ملین پاؤنڈ کے برابر ہے۔
سنہ 1765سے 1780 کے دوران کمپنی کے افسران بنگال سے ہر سال اوسطاً 30 لاکھ پاؤنڈ برطانیہ منتقل کرتے رہے جو کل آمدنی کا 25 فیصد تھا۔ یہ دولت کا انخلاتھا جس نے مقامی معیشت کو تباہ کر دیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا بجٹ کئی یورپی ملکوں سے زیادہ ہوتا تھا.
برصغیر کے وسائل کمپنی کی تجوری میں جانے لگے.
1772 میں کمپنی کی ایک ہنگامی قرضے کی درخواست پر برطانوی حکومت نے ایک ملین پاؤنڈ کا بیل آؤٹ دیا۔
اس بحران کے بعد کمپنی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور برطانوی پارلیمانی کمیٹیوں کی تحقیقات کے نتیجے میں کمپنی پر سرکاری نگرانی مسلط کر دی گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس اپنی فوج تھی جو 1800 تک دو لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہو چکی تھی یعنی اُس وقت کی برطانوی فوج سے دو گنا بڑی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرگرمیوں، خاص طور پر اس کے ملازمین کے رویے نے برطانیہ میں شدید عوامی غصہ پیدا کیا۔
1772 میں جب کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔
انیسویں صدی کے اوائل سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے غیرقانونی طور پر چین کو افیون فروخت کرنا شروع کی تاکہ وہ ہندوستانی چائے اور دیگر اشیا کی خریداری کا خرچ پورا کر سکے۔ چین کی طرف سے اس تجارت کی مخالفت کے نتیجے میں پہلی اور دوسری افیون جنگیں (42-1839) اور (60-1856) ہوئیں.
سنہ (58-1857) کی ’سپاہی بغاوت‘ جسے ہندوستان میں ’پہلی جنگِ آزادی‘ کہا جاتا ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوئی. برطانوی تاج نے 274 سالہ کاروباری تاریخ کے بعد یکم جون 1874 کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی خود ہی اپنے زوال کی ذمہ دار تھی، اور اس کا انجام بنیادی طور پر ہندوستان میں شدید بدانتظامی کی وجہ سے ہوا۔
جگت سیٹھ اور ہندو بینکاروں نے کمپنی کا ساتھ دیا۔ بنگال کے بھدرلوک طبقے نے مغل جاگیریں خریدیں۔ دیب، ملک اور ٹیگور خاندانوں نے ان جائیدادوں سے فائدہ اٹھایا اور کمپنی کے نظام میں شامل ہو گئے۔ بنگالی مڈل کلاس نے کمپنی کے بانڈز خریدے اور اس میں سرمایہ کاری کی۔ ان تمام عوامل کے بغیر کمپنی شاید کامیاب نہ ہو پاتی۔
جگت سیٹھ اور ہندو بینکاروں نے کمپنی کا ساتھ دیا۔ بنگال کے بھدرلوک طبقے نے مغل جاگیریں خریدیں۔ دیب، ملک اور ٹیگور خاندانوں نے ان جائیدادوں سے فائدہ اٹھایا اور کمپنی کے نظام میں شامل ہو گئے۔ بنگالی مڈل کلاس نے کمپنی کے بانڈز خریدے اور اس میں سرمایہ کاری کی۔ ان تمام عوامل کے بغیر کمپنی شاید کامیاب نہ ہو پاتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں