دروز

دروز کون ہیں اور اسرائیل انہیں کیوں بچانا چاہتا ہے

دروز ایک عربی بولنے والی نسلی اور مذہبی اقلیت ہیں جو بنیادی طور پر شام، لبنان، اسرائیل، اور مقبوضہ گولان ہائٹس میں رہتے ہیں۔ ان کا مذہب، دروزیت، گیارہویں صدی میں شیعہ اسلام کی ایک شاخ، اسماعیلی فکر، سے نکلا ہے، لیکن اس میں ہندو مت، عیسائیت، اور قدیم یونانی فلسفے کے عناصر بھی شامل ہیں۔
دروز اپنے مذہب کو رازداری کے ساتھ رکھتے ہیں، نہ وہ دوسروں کو اپنے مذہب میں شامل کرتے ہیں اور نہ ہی دوسرے مذاہب سے شادی کرتے ہیں۔ وہ ایک تنگ نظری والی، بند کمیونٹی ہیں جو اپنی ثقافتی اور مذہبی شناخت کو مضبوطی سے برقرار رکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں تقریباً ایک ملین دروز ہیں، جن میں سے شام میں سب سے زیادہ (تقریباً 50 فیصد)، لبنان، اسرائیل (تقریباً 1,52,000)، اور اردن میں رہتے ہیں۔ اسرائیل میں، وہ بنیادی طور پر شمالی علاقوں جیسے گلیل، کرمل، اور گولان ہائٹس میں رہتے ہیں اور وہاں کی آبادی کا 1.6 فیصد ہیں۔
دروز اپنی وفاداری اس ملک سے رکھتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔ اسرائیل میں، دروز کمیونٹی عموماً اسرائیلی ریاست کے ساتھ وفادار ہے اور وہ اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) میں لازمی فوجی خدمت انجام دیتے ہیں، جو انہیں دیگر عرب شہریوں سے ممتاز کرتی ہے۔
وہ اپنی شناخت کو پہلے مذہبی (دروز)، پھر ثقافتی طور پر عرب، اور آخر میں شہریت کے طور پر اسرائیلی سمجھتے ہیں۔ شام اور لبنان میں، دروز اپنی قومی وفاداری کو متعلقہ ممالک سے جوڑتے ہیں، لیکن وہ اکثر اپنی خودمختاری کی حفاظت کے لیے اپنی ملیشیا رکھتے ہیں۔
شام میں فرقہ وارانہ تشدد کی ایک تازہ اور مہلک لہر نے جہاں ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں ملک کے طول و عرض میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں شامی حکومت کی مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔

حالیہ پُرتشدد جھڑپوں کا آغاز 13 جولائی کو ’دروز‘ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کے اغوا کی خبر سامنے آنے کے بعد ہوا۔ یہ خبر سامنے آتے ہی جنوبی شام میں دروز ملیشیا اور سُنی بدو جنگجو مدِمقابل آ گئے۔

دو دن بعد، یعنی 15 جولائی کو اسرائیل نے اس معاملے میں فوجی مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اُس کی افواج دروز آبادی کی حفاظت اور انھیں نشانہ بنانے والی شامی حکومت کی حامی افواج کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اسرائیلی دروز رہنماؤں، جیسے شیخ موفق طریف، نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام کے دروز کی حفاظت کرے، کیونکہ وہ انہیں اپنی برادری کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسے “اخوت کے بندھن” کے طور پر بیان کیا ہے۔
اسرائیل شام کے دروز کی حفاظت کے نام پر فوجی کارروائیاں کرتا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے اس کے اپنے اسٹریٹجک مقاصد ہیں۔
شام میں بشار الاسد کے خاتمے کے بعد، نئی اسلام پسند قیادت والی حکومت (احمد الشرع کے زیر قیادت) کے بارے میں اسرائیل کو خدشات ہیں کہ وہ اس کے شمالی سرحدات، خاص طور پر مقبوضہ گولان ہائٹس کے قریب، خطرہ بن سکتی ہے۔ اسرائیل نے شام کے جنوبی علاقوں، جیسے سویڈا (جہاں دروز کی اکثریت ہے)، کو غیر فوجی زون بنانے کی پالیسی اپنائی ہے تاکہ وہاں کوئی مضبوط فوجی موجودگی نہ ہو۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اتوار سے اب تک شام کے صوبہ سویدا میں کم از کم 350 افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے 16 جولائی کو دمشق پر اسرائیلی حملے شروع ہونے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’دمشق میں انتباہی عمل ختم ہو گیا، اب تکلیف دہ ضربیں لگیں گی۔‘

یہ حملے دسمبر 2024 کے بعد سے شام میں اسرائیل کی سب سے سنگین کارروائی ہیں، جب اس نے ملک بھر میں سینکڑوں فوجی اہداف کو تباہ کیا اور شام میں گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے بفرزون پر قبضہ کیا تھا۔
شام کے عبوری صدر احمد الشراع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کھلی جنگ کا آپشن موجود تھا تاہم امریکہ، سعودی عرب اور ترکی کی ثالثی نے خطے کو بچا لیا۔

جمعرات کی صبح نشر ہونے والے پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب میں شامی صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل شامی عوام کے اتحاد کو توڑ کر شام کو ایک نہ ختم ہونے والے انتشار کے سلسلے میں دھکیلنا چاہتا ہے۔

الشراع کا کہنا ہے کہ شام کے عوام جنگ سے نہیں ڈرتے اور اس صورتحال میں ان کے پاس دو آپشنز تھے۔

’یا تو ہم اقلیتی دروز فرقے کی سلامتی کی قیمت پر اسرائیل کے ساتھ کھلے تصادم کی طرف جاتے۔۔۔ یا دروز کے معززین اور شیخوں کو ہوش کے ناخن لینے کی اجازت دی جائے اور قومی مفاد کو ان لوگوں پر ترجیح دی جائے جو دوسروں کی ساکھ کو داغدار بنانا چاہتے ہیں۔‘

شامی صدر کا کہنا ہے کہ ریاست نے شامیوں کے مفادات کو ترجیح دی۔

50% LikesVS
50% Dislikes
اپنا تبصرہ لکھیں