بھارتی بحریہ نے حال ہی میں اپنے جدید اینٹی سب میرین جنگی جہاز، آئی این ایس ارنالہ کو متعارف کرایا ہے، جو اپنی جدید ٹیکنالوجی اور بے پناہ صلاحیتوں کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ آئی این ایس ارنالہ، نہ صرف اپنی تکنیکی صلاحیتوں بلکہ اپنے نام کی وجہ سے بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ’ارنالہ‘ نام ایک تاریخی اور جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے، جو بھارت کے ماضی اور اس کے بحری عزائم کو جوڑتا ہے۔’ارنالہ‘ نام کا تعلق بھارت کے مغربی ساحل پر واقع ایک تاریخی جزیرے اور قلعے سے ہے، جو مہاراشٹر کے قریب واقع ہے۔ ارنالہ جزیرہ مراٹھا سلطنت کے دور میں ایک اہم دفاعی اور بحری مرکز تھا، جو پرتگالیوں اور بعد میں برطانویوں کے خلاف مزاحمت کی علامت رہا ہے۔
یہ جہاز اربوں روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے جو بھارتی بحریہ کی طاقت میں بڑا اضافہ ہے۔ لیکن کیا یہ جہاز پاکستان کے سمندری دفاع کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتا ہے؟
آئی این ایس ارنالہ کی تکنیکی صلاحیتیں
آئی این ایس ارنالہ بھارت کے گارڈن ریچ شپ بلڈرز اینڈ انجینئرز لمیٹڈ (جی آر ایس ای) میں تیار کیا گیا ہے اور یہ 16 اینٹی سب میرین جنگی جہازوں کے منصوبے کا حصہ ہے، جس کی کل لاگت 12 ہزار کروڑ روپے سے زائد ہے۔ اس جہاز کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا جدید “ایس این آر سسٹم” ہے، جو کم گہرائی والے ساحلی پانیوں میں آبدوزوں کا پتہ لگانے اور انہیں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سسٹم بھارتی بحریہ کو بحر ہند میں اپنی نگرانی اور دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
اس کے علاوہ، آئی این ایس ارنالہ پانچ اقسام کے ہتھیاروں سے لیس ہے، جن میں گائیڈڈ میزائل، ٹارپیڈوز، اور مائن لانچرز شامل ہیں۔ یہ جہاز نہ صرف آبدوزوں کے خلاف کارروائی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے بلکہ ساحلی دفاع اور بحری گشت کے لیے بھی موزوں ہے۔
انڈیا کی بین الاقوامی تجارت کا تقریباً 95 فیصد حصہ سمندری راستوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ان راستوں میں بحیرہ عرب، خلیج بنگال اور بحر ہند کے سمندری علاقے شامل ہیں۔
سکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انڈیا کی ساحلی پٹی 11 ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔ اس پورے علاقے میں 200 سے زیادہ بندرگاہیں اور بہت سے ساحلی شہر واقع ہیں۔
دشمن کی آبدوزوں کا پتہ لگانے کے لیے یہ جنگی جہاز ‘ایس این آر سسٹم’ سے لیس ہے۔ ‘ایس این آر’ساؤنڈ، نیویگیشن اور رینج کا مخفف ہے۔ یہ ایک خاص تکنیک ہے۔ اس کے ذریعے آواز کی لہروں کی مدد سے پانی کے اندر موجود آبدوزوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ دشمن کی آبدوز پر یہ معلوم کرنے کے بعد ہی حملہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کہاں موجود ہے۔
پاکستان کے لیے خطرات
آئی این ایس ارنالہ پاکستانی بحریہ کے لیے ایک نئے چیلنج کی شکل میں سامنے آیا ہے، کیونکہ یہ جہاز بحر ہند کے ساحلی علاقوں میں بھارت کی نگرانی کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ پاکستان کی بحریہ، جو اپنی آبدوزوں اور جنگی جہازوں کے ذریعے سمندری حدود کے دفاع میں مصروف ہے، اب اس نئے خطرے کے جواب میں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔
کیا پاکستان کی بحریہ کے پاس اس جدید جہاز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ کیا پاکستان کو اپنی آبدوزوں اور اینٹی سب میرین صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے؟ ان سوالات کے جوابات پاکستانی بحریہ کی مستقبل کی حکمت عملی پر منحصر ہیں۔
مزید برآں، آئی این ایس ارنالہ کی موجودگی بحر ہند میں جیو پولیٹیکل کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے، خاص طور پر اگر بھارت اپنی بحری طاقت کو خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرے۔ پاکستان کو نہ صرف اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ سفارتی سطح پر بھی خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہوگا۔