نہ ملتا غم تو بربادی کے فسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
آسائشیں بہت تھیں, پر زندگی کو ہم نے
اک دائرے میں لا کر, اِک دَار پر گُزارا
دریا دِلی کا مطلب, دریا پہ آ کے سمجھا
اِس پار تُم ہو میرے, اُس پار میں تُمھارا۔
منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دُنیا
یہ دنیا مل بھی جائے تو کیا ہو ؟!؟
بجھ رہے ہیں ایک اک کر کے عقیدوں کے دیے
اس اندھیرے کا بھی لیکن سامنا کرنا تو ہے
جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے
حسرتیں شب کو پکڑتی ہیں گریباں میرا
اور میں سر کو جھکائے رو پڑتا ہوں
گزرا ہوا وقت اور گزرے ہوۓ لوگ واپس نہیں آئینگے
جو لوگ میسر ہیں ان کی بے پناہ قدر کیجیے
کم ظرفوں پہ کہاں جچتی ہے قُبائے سِکندری.
اعلیٰ ظرف ہی تو ہیں جو ہر دَور میں زِندہ ہیں.
تم کچھ تو نبھا دیتے،آخر کو محبت تھی
ہم نے تو عقیدت میں،لہجہ بھی نہیں بدلا
ہے شوق سفر ایسا، اک عمر سے ہم نے
منزل بھی نہیں پائی، رستہ بھی نہیں بدلا
رات سب کی ۔ ۔ ایک ہی ہوتی ہے پگلے
بس اندھیرے اپنے اپنے ہوتے ہیں
تعلق ہو تو روح سے ہو
دل تو اکثر بھر جاتے ہیں
وہ مری چپ کو جان لیتا تھا،
اب مجھے شعر کہنا پڑتے ہیں
آنکھیں کُھلیں تو جاگ اُٹھیں حسرتیں تمام
اُس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں
جانے کس غم کا استخارہ ہے
تیتلیاں مر رہی ہیں خوابوں میں
میں اسے خواب جدائی کا سناتا کیسے
وہ نیند میں رونے کا سبب پوچھ رہا تھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں
شبنم کبھی شعلہ کبھی طوفان ہیں آنکھیں
آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی
تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں
آنکھیں ہی ملاتی ہیں زمانے میں دلوں کو
انجان ہیں ہم تم اگر انجان ہیں آنکھیں
لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی
انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں
آنکھیں نہ جھکیں تیری کسی غیر کے آگے
دنیا میں بڑی چیز مری جان! ہیں آنکھیں
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی
ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی
شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر
لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی
کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے
آتی ہے جان من یہ قیامت کبھی کبھی
تنہا نہ کٹ سکیں گے جوانی کے راستے
پیش آئے گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی
پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں
ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے
ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے
انہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے
بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بے کار امیدو
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے