فنگر پرنٹ
انسانی جسم کی انگلیوں میں لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں جب انسان ماں کے شکم میں” 4 “ماہ تک پہنچتا ہے یہ لکیریں ایک ریڈیایی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں ان لہروں کو بھی پیغامات ڈی۔۔این۔۔اے دیتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں پاتیں گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے۔ کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں موجود ہیں اور جو دنیا فانی میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔
کہ ہے کوئ مجھ جیسا ڈیزائنر ؟؟؟ الْمُبْدِئُ
کوئ ہے مجھ جیسا کاریگر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا آرٹسٹ ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا مصور ؟؟؟ الْمُصَوِّرُ
کوئ ہے مجھ جیسا تخلیق کار ؟؟؟ الْخَالِقُ
حیرانگی کی انتہاء تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔
پس ہم پر کھلتا ہے کہ پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی بہرحال “لا الہ الا اللہ” کا معنہ و مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور دوسرے تمام خودساختہ معبودوں کی نفی کی جائے۔چاہے وہ بتوں کی شکل میں ہوں یا شمس و قمر ہوں ۔الہ واحد کی عبادت تب ہی متحقق ہو گی جب ان سب کی نفی ہو گی۔اس نفی اور انکار و تردید ہی میں توحید کا اثبات ہے۔ کلمہ “لا الہ الا اللہ” ہمیں سبق دیتا ہے کہ صرف حق کا اثبات ہی کافی نہیں ہے بلکہ باطل کی تردید و تغلیط بھی ضروری ہے،اس کے بغیر حق نمایاں اور نکھر کر سامنے نہیں آتا ۔جیسے سورج کی روشنی تب ہی واضح ہوتی ہے جب رات کی ےتاریکی اپنا دامن سمیٹ لیتی ہے ۔رات کی تاریکی میں سورج اپنی تابناکیاں بکھیرنے سے قاصر رہتا ہے۔