کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں
اور ہم کچھ نہیں کرتے ہیں غضب کرتے ہیں
آپ کی نظروں میں سورج کی ہے جتنی عظمت
ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں
ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے
ہم قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں
دیکھیے جس کو اسے دھن ہے مسیحائی کی
آج کل شہر کے بیمار مطب کرتے ہیں
خود کو پتھر سا بنا رکھا ہے کچھ لوگوں نے
بول سکتے ہیں مگر بات ہی کب کرتے ہیں
ایک اک پل کو کتابوں کی طرح پڑھنے لگے
عمر بھر جو نہ کیا ہم نے وہ اب کرتے ہیں
راحت اندوری
50% LikesVS
50% Dislikes