دِل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
اِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اُسے نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا مجھے نادان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچھیے
یارو سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
رسماً ہی آ کے پُوچھتا فاروق حالِ دل
کچھ اِس میں اُسکی ذات کا نقصان تو نہ تھا
100% LikesVS
0% Dislikes